شام کافی سرد تھی۔پہاڑوں سے ٹھنڈی ہوائیں شائیں شائیں کرتی گزر رہی تھیں۔مگر ہال کے اندر ہلکی ہلکی بدن کو ٹکور کرنے والی حرارت تھی۔ہال سامعین و حاضرین سے بھرا ہوا تھا۔مصوری کے موضوع پر کانفرنس تھی تو وہ بھی چلا آیا۔سٹیج کی پشت پر لگی بڑی سکرین پر slide showمیں تصویریں چل رہی تھیں۔وہ مقرر کی تقریر سے زیادہ ان تصویروں کے سحر میں کھویا ہوا تھا کہ اسے اپنے بائیں طرف سے ہلکی سی خوشبو آئی۔۔۔۔۔مفلر کے اندر اچھی طرح لپٹی ہوئی گردن کو اس نے ہلکا سا موڑا تو آنکھیں سیدھی اس کے ماتھے کے ساتھ جا ٹکرائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہاں سے پھسلیں تو اس کی آنکھوں پر جا کے اٹک گئیں۔۔وہ بھی اس کی طرف دیکھ چکی تھی
ہائے کیا حال ہے؟؟؟اس نے ہاتھ آگے بڑھایا
ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھی لگ رہی ہو۔۔۔۔وہ ہاتھ تھامتے ہوئے بولا
کب آئی ہو؟؟؟؟
آج ہی آئی ہوں۔۔
بتا دیتی۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا فرق پڑتا ہے ۔۔مل تو گئے ہم۔۔
ہمسائے جو ہیں۔۔ہمسایہ ٹھنڈ میں گرم چادر کی بکل جیسا ہوتا ہے جب دیا ر غیر میں ملے
عجیب سی سرشاری کے ساتھ اس نے اس کے ہونٹوں کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔۔۔۔تمہاری اس لپ اسٹک کا رنگ کون سا ہے؟
جامنی ہے۔۔۔۔۔وہ پھر مسکرائی
ایک دلنواز سی حدت پھیل کر اس کو گھیرے میں لے رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔ساتھ ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کے سانسوں کو محسوس کرنا بھی ایک راحت ہے۔۔مقرر کیا کہہ رہا تھا اس نے نہیں سنا۔۔اس کی ساری حسیات ساتھ والے سانسوں پر مرتکز تھیں جو اس کے سانسوں کے ساتھ مل کر ہالہ بنا رہے تھے ۔درد جو ہر وقت بدن کو کاٹتا رہتا تھا اس وقت کہیں سو گیا تھا۔اس نے مفلر پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔بعض جسموں کی محض موجودگی ہی روح کو سرشار کر دیتی ہے۔وہ اس وقت سامنے کی طرف متوجہ ہوچکی تھی۔۔اس کو اس خیال سے ہی تسکین ہوئی کہ وہ اسکے ساتھ بیٹھی سانس لے رہی ہے
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے اختیار اس نے گلزار کی یہ لائن پڑہی
جیے جاتے ہیں ۔۔۔جیے جاتے ہیں
عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں
جیے جانا بھی کیسی عادت ہے۔۔۔وہ مسکرائی
تم ہر وقت جس درد کو کاٹتے ہو نا! وہ میری روح کو بھی چھیدتا رہتا ہے۔۔۔۔وہ سرگوشی میں بولی
وہ مسکرا نے لگا۔خیال جانے کیاں غوطہ کھا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جامنی رنگ جب پھیلتا ہے تو شفق کی تصویر بن جاتا ہے۔۔۔جس کے نیچے سمندر بہہ رہا ہو۔جامنی رنگ کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔۔لہر کے اوپر لہر آتی ہے۔۔وہ زندہ ہے،جیتا ،جاگتا،توانا،کف اڑاتا ہوا، رواں دواں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے اندر حیات یے۔۔وہ دیکھو
اس نے انگلی سے سکرین کی طرف اشارہ کیا۔۔۔وہ حیرت سے اس کو تک رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کہہ رہے ہو تم؟؟؟؟سکرین پر تو "دی لاسٹ سپر" دکھائی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔چلو اٹھو کہیں چلتے ہیں
ہال کی سیڑھیاں چڑھ کر وہ باہر آگئے۔۔۔باہر رات سیاہ اور تاریک تھی۔۔۔وہ ساتھ ساتھ چلنے لگے۔۔۔رات ان کے آس پاس سے ہو کر گزرنے لگی
کیسا ہے تمہارا وہ؟
ٹھیک ہی ہوگا میری بہت دنوں سے بات ہی نہیں ہوئی
کیوں اتنے عرصے تک لا تعلق کیوں ہو جاتی ہو تم؟؟؟؟؟؟؟؟
شاید ہم دونوں ایک جیسے ہیں اس لیے
مقناطیس کے دو ایک جیسے پول ایک دوسرے کو دور دھکیلتے ہیں۔۔۔اور دو مخالف پول کھنچ کر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ مقنا طیس ہوتا ہے انسان نہیں۔۔۔وہ چڑ گئی
پتا نہیں کیوں تم لوگوں نے مادی اشیا کے خواص اور زمہ داریوں کوانسانی تعلقات اور رویوں کے ساتھ جوڑ لیا ہے۔۔لوہے اور پتھروں کی مثالیں لے کر آ جاتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریکی ان کے آس پاس سے سرک رہی تھی۔۔دونوں بہت قریب قریب چل رہے تھے۔۔۔وہ اس کے ساتھ چلتا رہا۔اس کو چھونے کی خواہش اس کے لہو کے خلیوں کے اندر جڑ پکڑ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر وہ لا تعلقی سے چلتی رہی
عجیب عورت ہے یہ۔۔۔۔پھیکی،گہری،الگ الگ،آزاد۔۔۔۔۔بے ربط لفظ اور خیالات جیسے کہ شدید خواہش میں کسی سبب کے قابو نہ آسکنے پر کسی شخص کے ہوتے ہیں اس کے دماغ سے نکل نکل کر ٹھنڈے برفائےہوئےاندھیرے میں گم ہوتے گئے۔۔۔
اس کا مرکز سلامت تھا۔۔وہ اپنے مرکز کو بچائے ہوئے تھی۔۔۔۔پھیکی ،بے رنگ ،گہری اور الگ تھلگ۔۔۔۔۔وہ جانتا تھا کہ اس کی اس کو چھونے کی خواہش تشنہ تکمیل رہے گی
بوڑھا مصور رنگوں کے سٹروک لگا رہا تھا۔۔۔۔سٹروک پر سٹروک لگائے جا رہا تھا۔رنگ بکھر رہے تھے۔پھیل رہے تھے۔۔۔وہ سنگی مجسمے کی طرح پتھرائی ہوئی بیٹھی تھی۔۔۔۔بوڑھا اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔۔۔وہ وحشیانہ انداز میں سٹروک پہ سٹروک لگا رہا تھا۔۔۔رات کے منتشر اور آوارہ ٹکڑے ادھر ادھر کونوں کھدروں،سوراخوں،اور نیچی چھت کے گھروں کے اندر پناہ لئے ہوئے تھے۔۔۔۔۔دن دھندلایا ہوا تھا۔۔۔سارے رنگ،سبھی رنگ ،اپنی اپنی شناخت سے ورا ہی ورا تصویر کے قالب میں ڈھلتے جا رہے تھے
مصور تھک ہار کر بیٹھ گیا اور کنج لب کو زرا کھینچ کر اور ایک آنکھ کو قدرے میچ کراس نے طنزیہ اس کی طرف دیکھا۔۔۔مصور نے رنگوں کے ساتھ کھلواڑ کیا تھا
آنکھ سے اوجھل پس منظر اور پیش منظر میں اتنے رنگ بھر دیئے تھے کہ ناظر کی آنکھ اس کے مرکز کی طرف جا ہی نہ سکتی اور راستے کے رنگوں کے بھٹکاوے کا شکار ہو جاتی تھی
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر سامنے آئی۔۔۔کینوس پر رنگوں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔
نیلے،پیلے،سرخ،سبز،جامنی،کاسنی،سرمئی رنگوں کے دریا اس کے ہاتھوں کے ناخنوں سے پھوٹ بہے۔۔۔بصارت کو رنگوں نے لپیٹ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تصویر مکمل تھی

No comments:
Post a Comment