باپ کی دلہن
کالی اندهیری رات،تیز ہوا سے پیدا ہونے والا شور اور ساته ہی کهڑکی کی کهٹ کهٹ...صبا نے جلدی سے اٹه کر کهڑکی بند کی..بچوں کو ابهی تو سلایا ہے.اٹه گئے تو اس خوفناک آندهی سے ڈر جائیں گے.وہ بربڑائی.خود بهی وہ بچپن سے ہی گرجتے بادل اور بجلی کی چمک سے خوفزدہ ہو جاتی تهی..کهڑکی کے آگے پردہ کر کے وہ بستر پہ ہی بچوں کے پاس بیٹه گئی.نیند آنکهوں سے کوسوں دور تهی.اس نے کمر کےپیچهے تکیہ رکها.اور ساته رکهی میز کی دراز سے اپنی وہ ڈائری نکالی جس میں اس کی بچپن سے لے کر اب تک کی تمام یادیں قید تهیں.چند لمحے ڈائری کو بغور دیکهنے کے بعد اس نے دهیرے سے اسے کهولا تو وہی صفحہ کهلا.جہاں سے اس کی زندگی کے نشیب و فراز کا آغاز ہوا تها.جب اس کے باپ نے ماں کو طلاق دے کر چاروں بچوں کو اپنے پاس رکه لیا اور مہینہ بعد ہی دوسری شادی کر لی ...وہ پڑهنے لگی.لکها تها.. ہم اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتے تهے مگر ابا کے غصے سے ڈر کر سہم جاتےاور اپنی سسکیوں کو دبانے کی کوشش کرتے تهے..ابا کے الفاظ اج بهی کانوں کے پردے پهاڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں. 'خبردار جو تم سب نے ماں کے لئے آنسو بہائے..مر گئی وہ تمهارے لئے...بس اب یہ نئی ماں ہی تمهاری ماں ہے..' سب سے چهوٹا بهائی ڈر کے مجه سے لپٹ جاتا اور باقی دونوں بهی میرے دوپٹہ کا کونا منہ میں ڈال کر میرے پیچهے چهپنے کی کوشش کرتے تهے.میری عمر اس وقت تقریبا چودہ سال تهی.بڑی بہن ہونے کی وجہ سے چهوٹوں کے سامنے آنسووں کو پلکوں سے قید کرنے کی ناکام کوشش کرتی.اور بار بار واش روم جا کر آنسووں کو آزاد چهوڑ دیتی. دل کا بوجه ہلکا کر کے منہ دهو کے پهر گهر کے کاموں میں لگ جاتی.نئی ماں چهوٹی چهوٹی باتوں پر کبهی کان مروڑ دیتی کبهی بازو. زیادہ غصہ آتا تو تختی مار مار کے توڑ دیتی.... امی نانا ابو کے گهر رہنے لگی تهیں. نانا ابو کا گهر بازار جاتے ہوئے راستے میں آتا تها.ایک دن میں اور چهوٹا بهائی نئی ماں کے ساته بازار جا رہے تهے.کہ نانا ابو کے گهر کے قریب پہنچ کر ہماری نظریں ان کی کهڑکی پہ جم کررہ گیئں وہاں امی سر پہ دوپٹہ لئے اداس کهڑی تهیں.ہمارے قدم وہیں روک گئے.میرے آنسو بے اختیار بہنے لگے.بهائی کی تو ہچکی ہی بنده گئی.امی کی بے چینی بهی اس چڑیا کی ماند تهی جس کے گهونسلے پر کسی کوے نے اچانک قبضہ کر لیا ہو.وہ ہاته کے اشارے سے شائد ہمیں حوصلہ دے رہی تهیں اور بار بار آنکهوں پہ بهی ہاته پهرتی جاتیں تهیں..نئی ماں نے پیچهے مڑ کے دیکها اور فورا حالات بهانپ کر ہمیں وہاں سے گهسیٹتے ہوئے لے جانے لگیں.ہمارے قدم آگے اور نظریں پیچهے امی پر تهیں. نئی ماں کے ہاته کی گرفت اور ناخنوں کی چبهن سے امی سے لپٹنے کی خواہش اور بڑه رہی تهی. میں نے اپنی سسکیوں کو دبانے کے لئے منہ پہ ہاته رکه لیا مگر چهوٹا بهائی بلک بلک کر روتا رہا مگر اس کی چیخیں ٹریفک کے شور اور سبزی فروشوں کی آوازوں میں دب کر گم ہو گیئں.... ڈائری کا ایک ورق ختم ہو چکا تها.صبا نے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکهیں موند لیں اور دو موٹے موٹے آنسو اس کی گالوں سے پهسل گئے. اس نے ایک گہری سانس لی اور پهر ڈائری کے دو تین ورق آگے پلٹ کے پڑهنے لگی..لکها تها.آج امی کی جدائی میں سب سے چهوٹے بهائی کو فوت ہوئے چار مہینے گزر گئے ہیں...لکهنا بہت مشکل ہو رہا ہے.مگر مجهے کوئی سننے والا نہیں اگر ڈائری نہ لکهوں تو شائد میں بهی مر جاوں..خیر بهائی کی وفات کے بعد ابا کا دل بهی کچه نرم ہو گیا.اور امی کی سر توڑ کوششوں سے ابا نے دوسرابهائی اور بہن کوامی کے حوالے کر دیا.مگر مجهے گهر کے کاموں کے لئے رکه لیا..نئی ماں کے جوڑوں میں بہت درد رہتا تها.وہ کوئی کام نہ کرتیں.بس مجه پہ حکم چلاتیں.اور مارتی .میں چهپ چهپ کے روتی رہتی پر اس بات سے مطمین ہو جاتی کہ باقی دونوں بهائی بہن کو امی کی گود نصیب ہو گئی ہے..وقت گزرتا گیا .ایک دن ابا شدید بیمار رہنے کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے.لفظ دهندلانے لگے تو صبا نے دوپٹے کے پلو سے آنکهیں صاف کیں.ایک نظر بچوں کی طرف دیکها.اور ساته میز پر رکهے گلاس سے پانی کا گهونٹ بهر کے چند اور صفحے پلٹ کے پڑهنے لگی...ابا کے مرنے کے بعد نئی ماں مجهے امی سے دور کسی اور شہر میں لے آیئں.اتنی مہربانی کی کہ ساته والےگهر کی ایک استانی کے پاس پڑهنے بیٹها دیتں.باہر کے کاموںاور کچه نئی اورذمہ داریوں سے گهبرا کرتهوڑے ہی عرصے بعد نئی ماں نے اپنے سے کم عمر شخص سے شادی کر لی..مجهے بہت عجیب لگا پہلے نئی ماں تهی اب نیا باپ.... میری زندگی میں اپنا کوئی رشتہ نہیں تها.میں اپنی اندرونی ہنجانی کیفیت کو چیخیں مار مار کے باہر لانا چاہتی تهی.مگر ہمیشہ کی طرح خاموشی کے حصار میں آنسووں کے ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں تها..نئے ابا کا کاروبار اچها تها.کسی چیز کی کمی نہ تهی.چیزیں بهی نئی نئی آ رہی تهیں. وقت گزرتا گیا.ایک دن نئی ماں کے کمرے سے خلاف معمول بلند آوازوں کے شور سے مجهے تجسس ہوا.تو میں نے کان لگا کر سنا.ماں کہہ رہی تهی 'اس عمر میں بچے ہونا ممکن نہیں...تم خود سمجهدار ہو...ہاں ہاں جانتا ہوں.مگر میں اپنے آنگن میں اپنے بچوں کو کهیلتا کودتا دیکهنا چاہتا ہوں.....میرا دل اپنے بچوں کی آواز سننے کو ترستا ہے.ابا کے آخری جملے پر آواز میں کپکپاہٹ اور درد تها...قدموں کی آواز سن کر میں بهاگ کر اپنے کوٹهری نما کمرے میں آگئی..اسکے بعد میں ہر روز نئی ماں کو پریشان ہی دیکهتی.نئے ابا بهی چپ چپ اور افسردہ سے رہنے لگے تهے..میں ربوٹ کی طرح سر پہ دوپٹہ لئے کام کرتی رہتی. ایک دن میں شام کی چائے لے کر اپنے نئے والدین کے کمرے میں گئی.دونوں میری طرف یوں متوجہ ہوئے.جیسے پہلی بار دیکه رہے ہوں.ان کی گہری نظروں کے خوف سے میری کنپٹیوں پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے.ماں کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ دیکه کر میں چائے رکهتے ہی تیزی سے باہر آ گئی.اور خیر کی دعائیں مانگنے لگئی.رات کو نئی ماں کمرے میں آئیں اور خلاف توقع شفقت سے سر پہ ہاته رکها..مجهے کسی طوفان کے آنے کا احساس ہونے لگا. کیا تم اپنی ماں اور بہن بهائی سے ملنا چاہتی ہو؟ میری آنکهوں کی پتلیاں پهیل گئیں.خوشی کے جذبات سے الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہو کر حلق میں ہی پهنس گئے اور میں ہاں کے انداز میں دو تین بار سر ہلا کر بے چینی سےنئی ماں کے اگلے جملے کا انتظار کرنے لگی..وہ چارپائی پہ بیٹهتے ہوئے بولیں...میں تمهیں اگلے ہفتے تمهاری امی کے پاس بهیج دونگی..پر میری ایک شرط ہے.انهوں نے مجهے بهی ہاته سے پکر کے پاس بیٹها لیا..جلدی بتائیے کیا شرط ہے؟میں نے ان کے ہاته پر اپنا ہاته رکهتے ہوئے پوچها...دیکهو صبا تمهاری شادی کی عمر ہو گئی ہے.اور میں نہیں چاہتی تمهارا ہاته کسی ایرے غیرے کے ہاته میں دوں..میں چاہتی ہوں تم اسی گهر میں رہو..وہ میری پهٹی ہوئی نظروں کو نظر انداز کر کے بولتی گیئں..اس لئے تمهارا نکاح میں نے طے کر دیا ہے...پرسوں تمهارا نکاح......خالد کے ساته ہے.ایک نظر میرے چہرے کا جائزہ لینے کے بعد بولیں..خالد یعنی ..میرے میاں کے ساته ہے...تمهارا گهر بهی بس جائے گا اور اس کی بچوں کی تمنا بهی پوری ہو جائے گی....میرا جسم اندر سے کانپ رہا تها. صبح تمهارا جوڑا لے آونگی. پرسوں تیار ہو جانا...اور دیکهو..وہ جاتے ہوئے مڑیں. میں نے سوچوں کے گرداب سے نکل کر ان کی طرف دیکها..بولیں..مجهے کوئی ڈرامہ دکهانے کی ضرورت نہیں.پرسوں..یاد رکهنا....
صبا نے ایک گہری سانس لے کر ڈائری بند کر دی.واپس دراز میں رکه کر آنسو صاف کئے..باہر طوفان بهی تهم چکا تها..اس نے اپنے نئے باپ سے ہونے والے دونوں بچوں کا ماتها چوما اور ان پہ ہاته رکه کر ساته ہی سو گئی...
سارہ خان.
کالی اندهیری رات،تیز ہوا سے پیدا ہونے والا شور اور ساته ہی کهڑکی کی کهٹ کهٹ...صبا نے جلدی سے اٹه کر کهڑکی بند کی..بچوں کو ابهی تو سلایا ہے.اٹه گئے تو اس خوفناک آندهی سے ڈر جائیں گے.وہ بربڑائی.خود بهی وہ بچپن سے ہی گرجتے بادل اور بجلی کی چمک سے خوفزدہ ہو جاتی تهی..کهڑکی کے آگے پردہ کر کے وہ بستر پہ ہی بچوں کے پاس بیٹه گئی.نیند آنکهوں سے کوسوں دور تهی.اس نے کمر کےپیچهے تکیہ رکها.اور ساته رکهی میز کی دراز سے اپنی وہ ڈائری نکالی جس میں اس کی بچپن سے لے کر اب تک کی تمام یادیں قید تهیں.چند لمحے ڈائری کو بغور دیکهنے کے بعد اس نے دهیرے سے اسے کهولا تو وہی صفحہ کهلا.جہاں سے اس کی زندگی کے نشیب و فراز کا آغاز ہوا تها.جب اس کے باپ نے ماں کو طلاق دے کر چاروں بچوں کو اپنے پاس رکه لیا اور مہینہ بعد ہی دوسری شادی کر لی ...وہ پڑهنے لگی.لکها تها.. ہم اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتے تهے مگر ابا کے غصے سے ڈر کر سہم جاتےاور اپنی سسکیوں کو دبانے کی کوشش کرتے تهے..ابا کے الفاظ اج بهی کانوں کے پردے پهاڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں. 'خبردار جو تم سب نے ماں کے لئے آنسو بہائے..مر گئی وہ تمهارے لئے...بس اب یہ نئی ماں ہی تمهاری ماں ہے..' سب سے چهوٹا بهائی ڈر کے مجه سے لپٹ جاتا اور باقی دونوں بهی میرے دوپٹہ کا کونا منہ میں ڈال کر میرے پیچهے چهپنے کی کوشش کرتے تهے.میری عمر اس وقت تقریبا چودہ سال تهی.بڑی بہن ہونے کی وجہ سے چهوٹوں کے سامنے آنسووں کو پلکوں سے قید کرنے کی ناکام کوشش کرتی.اور بار بار واش روم جا کر آنسووں کو آزاد چهوڑ دیتی. دل کا بوجه ہلکا کر کے منہ دهو کے پهر گهر کے کاموں میں لگ جاتی.نئی ماں چهوٹی چهوٹی باتوں پر کبهی کان مروڑ دیتی کبهی بازو. زیادہ غصہ آتا تو تختی مار مار کے توڑ دیتی.... امی نانا ابو کے گهر رہنے لگی تهیں. نانا ابو کا گهر بازار جاتے ہوئے راستے میں آتا تها.ایک دن میں اور چهوٹا بهائی نئی ماں کے ساته بازار جا رہے تهے.کہ نانا ابو کے گهر کے قریب پہنچ کر ہماری نظریں ان کی کهڑکی پہ جم کررہ گیئں وہاں امی سر پہ دوپٹہ لئے اداس کهڑی تهیں.ہمارے قدم وہیں روک گئے.میرے آنسو بے اختیار بہنے لگے.بهائی کی تو ہچکی ہی بنده گئی.امی کی بے چینی بهی اس چڑیا کی ماند تهی جس کے گهونسلے پر کسی کوے نے اچانک قبضہ کر لیا ہو.وہ ہاته کے اشارے سے شائد ہمیں حوصلہ دے رہی تهیں اور بار بار آنکهوں پہ بهی ہاته پهرتی جاتیں تهیں..نئی ماں نے پیچهے مڑ کے دیکها اور فورا حالات بهانپ کر ہمیں وہاں سے گهسیٹتے ہوئے لے جانے لگیں.ہمارے قدم آگے اور نظریں پیچهے امی پر تهیں. نئی ماں کے ہاته کی گرفت اور ناخنوں کی چبهن سے امی سے لپٹنے کی خواہش اور بڑه رہی تهی. میں نے اپنی سسکیوں کو دبانے کے لئے منہ پہ ہاته رکه لیا مگر چهوٹا بهائی بلک بلک کر روتا رہا مگر اس کی چیخیں ٹریفک کے شور اور سبزی فروشوں کی آوازوں میں دب کر گم ہو گیئں.... ڈائری کا ایک ورق ختم ہو چکا تها.صبا نے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکهیں موند لیں اور دو موٹے موٹے آنسو اس کی گالوں سے پهسل گئے. اس نے ایک گہری سانس لی اور پهر ڈائری کے دو تین ورق آگے پلٹ کے پڑهنے لگی..لکها تها.آج امی کی جدائی میں سب سے چهوٹے بهائی کو فوت ہوئے چار مہینے گزر گئے ہیں...لکهنا بہت مشکل ہو رہا ہے.مگر مجهے کوئی سننے والا نہیں اگر ڈائری نہ لکهوں تو شائد میں بهی مر جاوں..خیر بهائی کی وفات کے بعد ابا کا دل بهی کچه نرم ہو گیا.اور امی کی سر توڑ کوششوں سے ابا نے دوسرابهائی اور بہن کوامی کے حوالے کر دیا.مگر مجهے گهر کے کاموں کے لئے رکه لیا..نئی ماں کے جوڑوں میں بہت درد رہتا تها.وہ کوئی کام نہ کرتیں.بس مجه پہ حکم چلاتیں.اور مارتی .میں چهپ چهپ کے روتی رہتی پر اس بات سے مطمین ہو جاتی کہ باقی دونوں بهائی بہن کو امی کی گود نصیب ہو گئی ہے..وقت گزرتا گیا .ایک دن ابا شدید بیمار رہنے کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے.لفظ دهندلانے لگے تو صبا نے دوپٹے کے پلو سے آنکهیں صاف کیں.ایک نظر بچوں کی طرف دیکها.اور ساته میز پر رکهے گلاس سے پانی کا گهونٹ بهر کے چند اور صفحے پلٹ کے پڑهنے لگی...ابا کے مرنے کے بعد نئی ماں مجهے امی سے دور کسی اور شہر میں لے آیئں.اتنی مہربانی کی کہ ساته والےگهر کی ایک استانی کے پاس پڑهنے بیٹها دیتں.باہر کے کاموںاور کچه نئی اورذمہ داریوں سے گهبرا کرتهوڑے ہی عرصے بعد نئی ماں نے اپنے سے کم عمر شخص سے شادی کر لی..مجهے بہت عجیب لگا پہلے نئی ماں تهی اب نیا باپ.... میری زندگی میں اپنا کوئی رشتہ نہیں تها.میں اپنی اندرونی ہنجانی کیفیت کو چیخیں مار مار کے باہر لانا چاہتی تهی.مگر ہمیشہ کی طرح خاموشی کے حصار میں آنسووں کے ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں تها..نئے ابا کا کاروبار اچها تها.کسی چیز کی کمی نہ تهی.چیزیں بهی نئی نئی آ رہی تهیں. وقت گزرتا گیا.ایک دن نئی ماں کے کمرے سے خلاف معمول بلند آوازوں کے شور سے مجهے تجسس ہوا.تو میں نے کان لگا کر سنا.ماں کہہ رہی تهی 'اس عمر میں بچے ہونا ممکن نہیں...تم خود سمجهدار ہو...ہاں ہاں جانتا ہوں.مگر میں اپنے آنگن میں اپنے بچوں کو کهیلتا کودتا دیکهنا چاہتا ہوں.....میرا دل اپنے بچوں کی آواز سننے کو ترستا ہے.ابا کے آخری جملے پر آواز میں کپکپاہٹ اور درد تها...قدموں کی آواز سن کر میں بهاگ کر اپنے کوٹهری نما کمرے میں آگئی..اسکے بعد میں ہر روز نئی ماں کو پریشان ہی دیکهتی.نئے ابا بهی چپ چپ اور افسردہ سے رہنے لگے تهے..میں ربوٹ کی طرح سر پہ دوپٹہ لئے کام کرتی رہتی. ایک دن میں شام کی چائے لے کر اپنے نئے والدین کے کمرے میں گئی.دونوں میری طرف یوں متوجہ ہوئے.جیسے پہلی بار دیکه رہے ہوں.ان کی گہری نظروں کے خوف سے میری کنپٹیوں پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے.ماں کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ دیکه کر میں چائے رکهتے ہی تیزی سے باہر آ گئی.اور خیر کی دعائیں مانگنے لگئی.رات کو نئی ماں کمرے میں آئیں اور خلاف توقع شفقت سے سر پہ ہاته رکها..مجهے کسی طوفان کے آنے کا احساس ہونے لگا. کیا تم اپنی ماں اور بہن بهائی سے ملنا چاہتی ہو؟ میری آنکهوں کی پتلیاں پهیل گئیں.خوشی کے جذبات سے الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہو کر حلق میں ہی پهنس گئے اور میں ہاں کے انداز میں دو تین بار سر ہلا کر بے چینی سےنئی ماں کے اگلے جملے کا انتظار کرنے لگی..وہ چارپائی پہ بیٹهتے ہوئے بولیں...میں تمهیں اگلے ہفتے تمهاری امی کے پاس بهیج دونگی..پر میری ایک شرط ہے.انهوں نے مجهے بهی ہاته سے پکر کے پاس بیٹها لیا..جلدی بتائیے کیا شرط ہے؟میں نے ان کے ہاته پر اپنا ہاته رکهتے ہوئے پوچها...دیکهو صبا تمهاری شادی کی عمر ہو گئی ہے.اور میں نہیں چاہتی تمهارا ہاته کسی ایرے غیرے کے ہاته میں دوں..میں چاہتی ہوں تم اسی گهر میں رہو..وہ میری پهٹی ہوئی نظروں کو نظر انداز کر کے بولتی گیئں..اس لئے تمهارا نکاح میں نے طے کر دیا ہے...پرسوں تمهارا نکاح......خالد کے ساته ہے.ایک نظر میرے چہرے کا جائزہ لینے کے بعد بولیں..خالد یعنی ..میرے میاں کے ساته ہے...تمهارا گهر بهی بس جائے گا اور اس کی بچوں کی تمنا بهی پوری ہو جائے گی....میرا جسم اندر سے کانپ رہا تها. صبح تمهارا جوڑا لے آونگی. پرسوں تیار ہو جانا...اور دیکهو..وہ جاتے ہوئے مڑیں. میں نے سوچوں کے گرداب سے نکل کر ان کی طرف دیکها..بولیں..مجهے کوئی ڈرامہ دکهانے کی ضرورت نہیں.پرسوں..یاد رکهنا....
صبا نے ایک گہری سانس لے کر ڈائری بند کر دی.واپس دراز میں رکه کر آنسو صاف کئے..باہر طوفان بهی تهم چکا تها..اس نے اپنے نئے باپ سے ہونے والے دونوں بچوں کا ماتها چوما اور ان پہ ہاته رکه کر ساته ہی سو گئی...
سارہ خان.
ایسی تمام لڑکیاں یا آنٹی لمبے اور موٹے لن سے اپنی پھدی کی پیاس بجھانا چہاتی ہیں اور ایسی پیاسی لڑکیاں اور آنٹیز جن کو لن لینے کا بہت دل ھے مگر وہ بدنامی کے ڈر کی وجہ سے لن نھی لے پاتی وہ رابطہ کریں میں مکمل رازداری سے پھدی کی پیاس بجھا دونگا اور کسی کو خبر بھی نہں ھو گی خفیہ سکیس کے لیے لڑکیاں اور آنٹی رابطہ کرے اپنے لمبے اور موٹے لن سے پھدی کو ایسا مزہ دونگا کہ آپ یاد کرو گی سب کچھ مکمل رازداری میں ھوگا اس لیے بنا ڈرے رابطہ کرے فون نمبر 03005755442
ReplyDeleteایسی تمام لڑکیاں یا آنٹی لمبے اور موٹے لن سے اپنی پھدی کی پیاس بجھانا چہاتی ہیں اور ایسی پیاسی لڑکیاں اور آنٹیز جن کو لن لینے کا بہت دل ھے مگر وہ بدنامی کے ڈر کی وجہ سے لن نھی لے پاتی وہ رابطہ کریں میں مکمل رازداری سے پھدی کی پیاس بجھا دونگا اور کسی کو خبر بھی نہں ھو گی خفیہ سکیس کے لیے لڑکیاں اور آنٹی رابطہ کرے اپنے لمبے اور موٹے لن سے پھدی کو ایسا مزہ دونگا کہ آپ یاد کرو گی سب کچھ مکمل رازداری میں ھوگا اس لیے بنا ڈرے رابطہ کرے فون نمبر 03065864795
ReplyDeleteجو لڑکیاں اور عورتیں سیکس کا فل مزہ رٸیل میں فون کال یا وڈیو کال اور میسج پر لینا چاہتی ہیں رابطہ کریں 03488084325
ReplyDelete