Tuesday, 5 May 2015

Kashish - Afsana - Syed Sadaqat Hussain


موسم بہار کی ابتدا تھی اور میرے اندر کا موسم خزاں رسیدہ تھا ۔ جمیلہ سے طلاق نے میرے زہن کو منتشر کرکے رکھدیا تھا ۔ میں رخت سفر باندھ چکا تھا ۔ سکھر سے کراچی جانی والی طویل آرامدہ جاپانی ساختہ بس اپنے سفر کے آغاز کے لیئے تیار کھڑی تھی ۔ مجھے بس کی درمیانی حصہ میں نشست ملی تھی ۔
بس کے مسافر ایک ایک کرکے اپنی نشستوں پر بیٹھ رہے تھے ۔ نجانے کب وہ سیاہ گوگلز ارغوانی ساڑھی اور گلے میں کنٹھی پہنے ہاتھ میں پرس تھامے میرے انتہائی قریب سے گزری اور میرے پیچھے والی نشست پر بیٹھ گئی ۔ جسکا مجھے احساس تک نا ہوا ۔ اسی اثنا کھلی کھڑکی سے ایک خنک ہوا کا جھونکا میرے وجود سے ٹکرایا اور فضا میں تحلیل ہوگیا ۔ میری بیدم خواہشات میں زندگی کی حرارت پیدا ہوئی مجھے ایسے لگا جیسے میرے جسم سے ایک روح نکل کر دوسری سما رہی ہے ۔ نسوانی جسم سے پھوٹتی خوشبو نے میری نشست کے احاطے میں تلاطم برپا کردیا تھا ۔ اس کے سانسوں سے لپٹی معطر ہوا میری پشت سے آرپار ہوکر میرے وجود کے توازن کو بگاڑ رہی تھیں ۔ لمحہ بھر کے لیئے میری بے ثبات اور آشفتہ زندگی کو ایسا محسوس ہوا جیسے شب افروز کے بند روزن کھل گئے ہوں ۔
سفر کا آغاز ہوچکا تھا ۔ بس اونچے نیچے راستوں سے اب نسبتا ہموار جگہ پر تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی ۔۔۔
دو گھنٹے کا سفر طے ہوچکا تھا ۔ اسی اثنا میں کتاب ختم کی اور اسے اپنے چرمی بیگ میں رکھنے ہی والا تھا کہ میری پشت کے جانب سے ایک ہلکی سی نسوانی آواز نے مجھے اسکی جانب متوجہ کرلیا ۔۔۔
اگر آپ نے یہ کتاب پڑھ لی ہو تو کیا میں اس کتاب کا مطالعہ کرسکتی ہوں ۔ کیونکہ ابھی شہر آنے میں کچھ گھنٹے باقی ہیں اور میں بوریت محسوس کررہی ہوں ۔۔
میں نے بلاتکلف کتاب اس کی جانب بڑھائی تو اسکا چہرہ میری نظروں کے سامنے تھا ۔۔۔۔
وہ مجھ سے عمر میں لگ بھگ چھ آٹھ سال بڑی تھی ۔ مترنم آواز ، خوشنما لباس روشن آنکھیں اور چمکتی پیشانی اس کے وسیع علم اور مطالعہ کو ظاہر کررہی تھی۔
وہ میری پچھلی نشست پر براجمان تھی اور ہم باتوں کا تبادلہ باآسانی کرسکتے تھے ۔
اسکی شخصیت کا دلکش سحر میرے لیئے ایک انوکھا تجربہ تھا ۔۔ وہ وقفے وقفے سے کتاب کے مطالعہ کے ساتھ مجھ سے گفتگو جاری رکھے ہوئی تھی ۔
میرا قیام ملک سے باہر ہوتا ہے اور میں پاکستان اپنے بھائی کی شادی کے سلسلے میں آئی ہوں ۔ میرے استفسار پر وہ مجھ سے مخاطب تھی ۔۔۔
میرا تجسس اس کو جاننے کے لیئے مسلسل پیچ و تاب کھا رہا تھا اور میں چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے اپنی تمام باتیں شئیر کرے ۔۔۔۔
ہماری بس کے دونوں اطراف سرسبز فصلیں لہلہارہی تھیں اور منظر تیزی سے بدل رہے تھے ۔ آسمان پر خاکستری بادلوں کا راج تھا اور تیز ہوا نے موسم کو قدرے خوشگوار کردیا تھا ۔
موسم اور منظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میں نے اپنی آنکھیں قدرےموندھ لیں اور نیند کی کچھ جھپکیاں لینے لگا ۔
تھوڑی ہی دیر بعد اچانک بس ہچکولے کھانے لگی اور ایک زوردار جھٹکے کے ساتھ رک گئی ۔ میری آنکھ کھلی تو وہ میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی ۔
میری آنکھ کھلنے پر اس نے ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ میری جانب دیکھا اور کہا " آپ کے برابر والی نشست خالی تھی میں نے سوچا آپ سے باتیں بھی ہوتی رہیں گی اور کتاب بھی پڑھتی رہونگی ۔" مگر آپ تو سو ہی گئے ۔۔۔ وہ کھلکھلا کے ہنسی تو اس کے موتی جیسے دانت اس کے چہرے پر چمکتے ستارے معلوم دیئے ۔۔۔
اسکی کھلکھلاہٹ کے جواب میں، میں نے بھی ایک خوشگوار مسکراہٹ اپنی چہرے پر بکھیری اور اسے خوش آمدید کہا ۔۔۔
بس میں کچھ فنی خرابی ہوگئی تھی ۔ جسے کنڈکٹر کلینر اور ڈرائیور درست کرنے میں جتے ہوئے تھے ۔۔۔
" لیں دیکھیں اتنا وقت گزرگیا اور میں نے آپکا نام اور کام تک نہیں پوچھا" وہ ہلکی سی مسکرائی ۔۔۔ جی میرا نام احسن ہے اور آپ ؟؟؟ ۔۔۔ "میں افشاں ہوں" ۔۔۔۔
بہت اچھے افسانوں کی کتاب ہے ۔ اس نے ایک اگلا صفحہ پلٹتے ہوئے مجھ سے کہا ۔
مجھے شاعری اور افسانے بہت پسند ہیں ۔ یہ سنکر میں بہت خوش ہوا اور سوچا کہ خاتون علمی اور ادبی شخصیت ہیں اور میرے مزاج سے مطابقت رکھتی ہیں ۔
ہماری گفتگو جاری رہی جس میں بے شمارنئے انکشافات میرے لیئے حیرت کے باعث تھے ۔ اسکی نجی زندگی مختلف طوفانوں کا سامنہ کرچکی تھی اسکے باوجود وہ اپنی باتوں سے بلند استقامت دکھائی دیتی تھی ۔
جوں جوں ہماری گفتگو آگے بڑھتی جارہی تھی توں توں اسکے چہرے کی کیفیات اور رنگ بدلتے دکھائی دے رہے تھے ۔ اس کے موضوعات سماجی ناانصافیوں بے قدریوں اور گھٹن کو اپنا محور بنارہے تھے ۔ اور میں اسکے بدلتے موضوعات اور ہیجان کو محسوس کررہا تھا ۔
ایک بار پھر گفتگو نے ایک طویل وقفہ لیا اور اس اثنا میری پھر آنکھ لگ گئی ۔
" تم مجھے اسطرح روز روز زدوکوب کرکے میری تزلیل نہیں کرسکتے ۔ مجھ میں کیا کمی تھی جو تم نے دوسری شادی کرلی اور مجھے چھوڑ دیا ۔ نہیں چاہیئے مجھے تمھاری جائیداد ۔ اسکی بڑبڑاھٹ سے میری آنکھ کھل گئی ۔ وہ یہ سب لاشعوری طور پر کہ گئی ۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی میں نے اس کی صورت کو غور سے دیکھا تو کرب و یاس کی تمام علامتیں اسکے چہرے پر عیاں تھیں ۔ مجھے فضا کا اجلا پن معدوم ہوتا دکھائی دیا ۔ روشنی تھی مگر دھندلی ۔ کہر کی ایک پتلی سی تہہ ہر شے پر چڑھی دکھائی دی ۔ جس سے فضا میں گدلہ پن پیدا ہوگیا تھا ۔ یہ گدلہ پن اس لحاظ سے بہتر لگا کہ بظاہر درست نظر آنے والی چیزوں کی شبہہ اور انکی نوک پلک کچھ مدھم دکھائی دینے لگی تھیں ۔
بس اب شہر کے مضافات میں داخل ہوچکی تھی اور تیزی سے بل کھاتی ہوئی ایک فلائی اوور عبور کررہی تھی ۔ قطار در قطار روشن بجلی کے قمقمے تیزی سے پیچھےچلے جارہے تھے جیسے زندگی تیزی سی اپنے اختتام کو بڑھ رہی ہو ۔
افشاں نے محسوس کرلیا تھا کہ میں اسکے اندرون مدوجزر کو جان چکا ہوں ۔ اسے اپنی زندگی منجمد سی محسوس ہوئی ۔ اس نے کچھ سسکیاں لیں اور اپنا سر میرے کندھے سے ٹکادیا ۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی ۔ خاکستری بادلوں کا رنگ گہرا سیاہ ہوچکا تھا ۔ پانی کے ننھے ننھے قطرے بس کے شیشوں پر پھسلتے ہوئے نیچے گر رہے تھے ۔ اور میرا وجود اسکے وجود کی حرارت سے ایک دلنواز کیفیت سے دوچار تھا ۔ میں محسوس کرسکتا تھا کہ وہ میرے وجود سے ٹکی بہت پرسکون دکھائیدے رہی تھی ۔
شہر کی سڑکوں کے دونوں اطراف گل داودی اور سورج مکھی کے تازہ پھول بارش کے قطروں سے نہارہے تھے ۔ اور فضا میں پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوچکا تھا ہوا میں خنکی بڑھتے ہی اس نے بیگ میں سے شال نکالی اور اسے اپنے جسم سے لپیٹ لیا ۔
کچھ لمحوں بعد اسے نیند سی محسوس ہوئی ۔ اس نے ایک بار پھر اپنا سر میرے کندھے سے ٹکایا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ گہری نیند میں تھی ۔
بس کی رفتار قدرے دھیمی ہوچکی تھی ۔ آفتاب مکمل غروب ہوچکا تھا روشنیوں سے پورا شہر منور تھا ۔ بس کا انجن بند ہوا تو وہ ہڑبڑا کے اٹھ گئی ۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اسکی خوبصورت آنکھوں میں آبگینے لہرارہے تھے اسی اثنا ہم دونوں نے ایکدوسرے کے ہاتھ تھامے ایک ساتھ بس سے نیچے اترے ۔ ٹیکسی میں سوار ہوئے اور ایک گھر کی جانب بڑھ گئے ۔

No comments:

Post a Comment