اللہ سب جانتا ہے
سوتے جاگتے کی کیفیت تھی لیکن ایک بات کا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میں مر چکا تھا۔ نہ صرف مر چکا تھا بلکہ مجھے خدا کے حضور پیش کرنے والے فرشتے میرے دونوں بازو پکڑے کشاں کشاں مجھے خدا کے سامنے پیش کرنے لئے چلے جا رہے تھے۔خواب کا یہ حصہ اتنا واضح نہیں تھا کہ میں اس کی تفاصیل بیان کر سکوں۔ایک جگہ فرشتے رکے۔وہ وہاں کے آداب جانتے تھے تو سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔میں ہونقوں کی طرح کھڑا رہا۔بس مجھے ایسا لگا میرے چاروں طرف ایک ٹھنڈی اور سکون بخش روشنی پھیلی ہوئی تھی۔مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا تو میں نے اپنی دائیں جانب کھڑے فرشتے سے کہا۔
’’یہاں مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہاہے۔اللہ میاں کہاں ہیں؟‘‘۔
فرشتے نے مجھے گھورا اور سرگوشی میں بولا۔
’’احمق کہیں کے۔دنیا سے آرہا ہے اور پوچھتا ہے کہ اللہ میاں کہاں ہیں؟اللہ میاں تو ہر چیز میں ہیں مگر تونے کبھی دیدہ بینا ہی پیدا نہیں کیا۔خود کو ہی دیکھتا رہا‘‘۔
شاید مرنے کے بعد انسان کی حسیات کچھ زیادہ ہی کام کرتی ہیں۔میں لمحہ بھر میں بہت کچھ سوچ گیا۔یہ فرشتہ بالکل ٹھیک بات کر رہا تھا۔میں نے سوچا تو مجھ پر کھلا کہ میں نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا تھا کہ اللہ میاں کہاں کہاں نہیں تھے؟مگر اب شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔میں اللہ میاں کے سامنے کھڑا تھا۔روشنی کے منبع سے نرم اور شفیق آواز پھر اُبھری۔
’’اس کا نامہ اعمال پیش کیا جائے‘‘۔
مجھے علم نہیں تھا کہ ہمارے علاوہ وہاں دو اور فرشتے بھی موجود تھے۔دونوں آگے بڑھے۔اُن کے ہاتھوں میں کاغذوں کا ایک ضخیم پلندہ تھا۔اُنہوں نے اُسے پڑھنا شروع کیا۔میں حیران رہ گیا۔وہ میری وہ وہ اچھائیاں اور برائیاں گنوا رہے تھے جن میں سے چند ہی مجھے یاد تھیں۔وہ گناہ جنہیں میں چھوٹا سمجھ رہا تھا اور وہ نیکیاں بھی جنہیں کرکے میں بھول چکا تھا۔فرشتوں نے یہاں تک لکھ رکھا تھا کہ میں نے ایک مرتبہ ایک ٹوٹی ٹانگ والے کتے کو رستے سے ہٹا کر سڑک کے کنارے ڈال دیا تھا کہ کوئی گاڑی اُسے کچل نہ دے۔اسی طرح ایک مرتبہ میں نے اپنی اماں کے دوپٹے کی گرہ سے ایک روپیہ بارہ آنے چوری کرکے فلم دیکھی تھی۔میرے ہر ہر پل کا حساب تھا اُن فرشتوں کے پاس۔فرشتے میرے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کرتے رہے۔پھر وہ اپنا لکھا ختم کرکے اُسی گوشے میں واپس چلے گئے جہاں وہ پہلے کھڑے تھے۔نور کے پردے کے پار خاموشی تھی لیکن یہ خاموشی مجھے بے قرار نہیں کر رہی تھی۔میں اپنے بارے میں فیصلہ سننے کا منتظر تھا۔پھروہی نرم، من موہنی، میٹھی آواز سنائی دی۔
’’میں قادر مطلق ہوں۔صمیم و بصیر ہوں۔تم سب سے زیادہ جانتا ہوں۔تم سے ایک چُوک ہو گئی ہے۔اس شخص کے بارے میں تم نے ایک انتہائی ضروری بات نہیں لکھی۔کیوں نہیں لکھی؟‘‘۔
میں نے گردن گھما کر کراماً کاتبین کو دیکھا۔وہ گھبرائے ہوئے اور پریشان دکھائی دے رہے تھے۔پھر دونوں آگے بڑھے، سجدے میں گئے اور ان میں سے ایک نے کھڑے ہو کر کہا۔
‘‘بے شک ہمارے مالک۔ایک سہو ضرور ہوا۔ہمیں معاف کر دے۔اور وہ سہو یہ تھا کہ اس شخص نے اپنے محلے میں بننے والی ایک مسجد کی تعمیر کی مخالفت کی تھی۔کہتا تھا مسجدیں قدم قدم پر ہیں۔یہاں ہسپتال بننا چاہئے۔سکول بننا چاہئے۔عورتوں کے لئے روزگار کا کوئی ذریعہ بننا چاہئے۔یہی بات تھی میرے مالک۔بلاشبہ ہم اس کا انجام جانتے ہیں۔جو شخص خدا کے گھر کا مخالف ہو، اُس کی جگہ جہنم کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتی‘‘۔
نور سے اُبھرنے والی آواز میں اب بھی نرمی تھی۔
’’میں قادر مطلق ہوں۔یہ فیصلہ مجھے کرنا ہے۔بلا شبہ مسجد میرا گھر ہے۔میں وہاں رہتا ہوں لیکن میں نے آدم کی تخلیق محض قدم قدم پر مسجدیں بنانے کے لئے نہیں کی تھی۔میں نے آدم کو درد دل کے واسطے پیدا کیا تھا۔ایک دوسرے کی غم گساری کا درس دے کر دنیا میں بھیجا تھا۔میں تم سے مشورہ نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کروں کیونکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں۔سب اللہ کے محتاج ہیں۔بادی النظر میں یہ گناہ ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن میں اس کے دل میں جھانک سکتا ہوں۔یہ ہمارا اور ہمارے نام پر بننے والی مسجدوں کا مخالف نہیں تھا۔یہ تنگ نظر انسانوں کا خیال ہو سکتا ہے۔ہمارا نہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے بعض اوقات ہماری حدوں سے تجاوز کیا۔اس کے نامہ اعمال میں ایسی سیاہی جا بجا بکھری دکھائی دیتی ہے۔ہم چاہیں تو اسے اسی وقت جہنم میں پھنکوا سکتے ہیں، لیکن ہم ایسا کریں گے نہیں کیونکہ یہ ہمارے بھیجے ہوئے مذہب میں پھندنے ٹانکنے والوں میں سے نہیں تھا۔مذہب کے نام پر وہ دھول اُڑانے والوں میں سے نہیں تھا جس نے ہمارا چہرہ ہی ہمارے ماننے والوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا ہے۔اس کے گناہوں کو نظر میں رکھیں تو اس کی جگہ جہنم ہی بنتی ہے لیکن لے جاؤ کمبخت کو اور جنت میں کوئی ایسا چھوٹا سا گھر الاٹ کردو جس میں ایک آدھ حور ہو اور اسے شراب کی کوئی تکلیف نہ ہو۔
میں اللہ میاں کو مہربان پا کر حوصلہ مند ہوا اور میں نے کہا۔
’’اللہ میاں۔سنا ہے حوریں یہاں لاکھوں برس سے رہتی ہیں اور یہاں کی شراب میں نشہ بھی نہیں ہوتا۔ایسی حور اور ایسی شراب لے کے میں کیا کروں گا کہ کسی اُستاد نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ جو مجھ کو پلانی ہے تو دنیا سے منگا دے!‘‘۔
اس بار جو آواز آئی تو اُس میں چھپی مسکراہٹ میں نے صاف محسوس کی۔اللہ میاں نے کہا۔
’’اسی لئے ہم نے کہا ہے انسان بہت جلد باز اور خسارے میں رہنے والا ہے۔ہماری مصلحتوں کو نہیں سمجھتا اور اپنی طرف سے ہمارے کارخانے میں مِین میخ نکالتا رہتا ہے۔بد بخت ایک دفعہ اُس گھر میں جا تو سہی!‘‘۔
میری آنکھ کھلی تو میرا جسم پسینے سے تر تھا اور دُور کہیں سے فجر کی اذان سنائی دے رہی تھی۔
سوتے جاگتے کی کیفیت تھی لیکن ایک بات کا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میں مر چکا تھا۔ نہ صرف مر چکا تھا بلکہ مجھے خدا کے حضور پیش کرنے والے فرشتے میرے دونوں بازو پکڑے کشاں کشاں مجھے خدا کے سامنے پیش کرنے لئے چلے جا رہے تھے۔خواب کا یہ حصہ اتنا واضح نہیں تھا کہ میں اس کی تفاصیل بیان کر سکوں۔ایک جگہ فرشتے رکے۔وہ وہاں کے آداب جانتے تھے تو سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔میں ہونقوں کی طرح کھڑا رہا۔بس مجھے ایسا لگا میرے چاروں طرف ایک ٹھنڈی اور سکون بخش روشنی پھیلی ہوئی تھی۔مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا تو میں نے اپنی دائیں جانب کھڑے فرشتے سے کہا۔
’’یہاں مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہاہے۔اللہ میاں کہاں ہیں؟‘‘۔
فرشتے نے مجھے گھورا اور سرگوشی میں بولا۔
’’احمق کہیں کے۔دنیا سے آرہا ہے اور پوچھتا ہے کہ اللہ میاں کہاں ہیں؟اللہ میاں تو ہر چیز میں ہیں مگر تونے کبھی دیدہ بینا ہی پیدا نہیں کیا۔خود کو ہی دیکھتا رہا‘‘۔
شاید مرنے کے بعد انسان کی حسیات کچھ زیادہ ہی کام کرتی ہیں۔میں لمحہ بھر میں بہت کچھ سوچ گیا۔یہ فرشتہ بالکل ٹھیک بات کر رہا تھا۔میں نے سوچا تو مجھ پر کھلا کہ میں نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا تھا کہ اللہ میاں کہاں کہاں نہیں تھے؟مگر اب شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔میں اللہ میاں کے سامنے کھڑا تھا۔روشنی کے منبع سے نرم اور شفیق آواز پھر اُبھری۔
’’اس کا نامہ اعمال پیش کیا جائے‘‘۔
مجھے علم نہیں تھا کہ ہمارے علاوہ وہاں دو اور فرشتے بھی موجود تھے۔دونوں آگے بڑھے۔اُن کے ہاتھوں میں کاغذوں کا ایک ضخیم پلندہ تھا۔اُنہوں نے اُسے پڑھنا شروع کیا۔میں حیران رہ گیا۔وہ میری وہ وہ اچھائیاں اور برائیاں گنوا رہے تھے جن میں سے چند ہی مجھے یاد تھیں۔وہ گناہ جنہیں میں چھوٹا سمجھ رہا تھا اور وہ نیکیاں بھی جنہیں کرکے میں بھول چکا تھا۔فرشتوں نے یہاں تک لکھ رکھا تھا کہ میں نے ایک مرتبہ ایک ٹوٹی ٹانگ والے کتے کو رستے سے ہٹا کر سڑک کے کنارے ڈال دیا تھا کہ کوئی گاڑی اُسے کچل نہ دے۔اسی طرح ایک مرتبہ میں نے اپنی اماں کے دوپٹے کی گرہ سے ایک روپیہ بارہ آنے چوری کرکے فلم دیکھی تھی۔میرے ہر ہر پل کا حساب تھا اُن فرشتوں کے پاس۔فرشتے میرے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کرتے رہے۔پھر وہ اپنا لکھا ختم کرکے اُسی گوشے میں واپس چلے گئے جہاں وہ پہلے کھڑے تھے۔نور کے پردے کے پار خاموشی تھی لیکن یہ خاموشی مجھے بے قرار نہیں کر رہی تھی۔میں اپنے بارے میں فیصلہ سننے کا منتظر تھا۔پھروہی نرم، من موہنی، میٹھی آواز سنائی دی۔
’’میں قادر مطلق ہوں۔صمیم و بصیر ہوں۔تم سب سے زیادہ جانتا ہوں۔تم سے ایک چُوک ہو گئی ہے۔اس شخص کے بارے میں تم نے ایک انتہائی ضروری بات نہیں لکھی۔کیوں نہیں لکھی؟‘‘۔
میں نے گردن گھما کر کراماً کاتبین کو دیکھا۔وہ گھبرائے ہوئے اور پریشان دکھائی دے رہے تھے۔پھر دونوں آگے بڑھے، سجدے میں گئے اور ان میں سے ایک نے کھڑے ہو کر کہا۔
‘‘بے شک ہمارے مالک۔ایک سہو ضرور ہوا۔ہمیں معاف کر دے۔اور وہ سہو یہ تھا کہ اس شخص نے اپنے محلے میں بننے والی ایک مسجد کی تعمیر کی مخالفت کی تھی۔کہتا تھا مسجدیں قدم قدم پر ہیں۔یہاں ہسپتال بننا چاہئے۔سکول بننا چاہئے۔عورتوں کے لئے روزگار کا کوئی ذریعہ بننا چاہئے۔یہی بات تھی میرے مالک۔بلاشبہ ہم اس کا انجام جانتے ہیں۔جو شخص خدا کے گھر کا مخالف ہو، اُس کی جگہ جہنم کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتی‘‘۔
نور سے اُبھرنے والی آواز میں اب بھی نرمی تھی۔
’’میں قادر مطلق ہوں۔یہ فیصلہ مجھے کرنا ہے۔بلا شبہ مسجد میرا گھر ہے۔میں وہاں رہتا ہوں لیکن میں نے آدم کی تخلیق محض قدم قدم پر مسجدیں بنانے کے لئے نہیں کی تھی۔میں نے آدم کو درد دل کے واسطے پیدا کیا تھا۔ایک دوسرے کی غم گساری کا درس دے کر دنیا میں بھیجا تھا۔میں تم سے مشورہ نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کروں کیونکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں۔سب اللہ کے محتاج ہیں۔بادی النظر میں یہ گناہ ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن میں اس کے دل میں جھانک سکتا ہوں۔یہ ہمارا اور ہمارے نام پر بننے والی مسجدوں کا مخالف نہیں تھا۔یہ تنگ نظر انسانوں کا خیال ہو سکتا ہے۔ہمارا نہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے بعض اوقات ہماری حدوں سے تجاوز کیا۔اس کے نامہ اعمال میں ایسی سیاہی جا بجا بکھری دکھائی دیتی ہے۔ہم چاہیں تو اسے اسی وقت جہنم میں پھنکوا سکتے ہیں، لیکن ہم ایسا کریں گے نہیں کیونکہ یہ ہمارے بھیجے ہوئے مذہب میں پھندنے ٹانکنے والوں میں سے نہیں تھا۔مذہب کے نام پر وہ دھول اُڑانے والوں میں سے نہیں تھا جس نے ہمارا چہرہ ہی ہمارے ماننے والوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا ہے۔اس کے گناہوں کو نظر میں رکھیں تو اس کی جگہ جہنم ہی بنتی ہے لیکن لے جاؤ کمبخت کو اور جنت میں کوئی ایسا چھوٹا سا گھر الاٹ کردو جس میں ایک آدھ حور ہو اور اسے شراب کی کوئی تکلیف نہ ہو۔
میں اللہ میاں کو مہربان پا کر حوصلہ مند ہوا اور میں نے کہا۔
’’اللہ میاں۔سنا ہے حوریں یہاں لاکھوں برس سے رہتی ہیں اور یہاں کی شراب میں نشہ بھی نہیں ہوتا۔ایسی حور اور ایسی شراب لے کے میں کیا کروں گا کہ کسی اُستاد نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ جو مجھ کو پلانی ہے تو دنیا سے منگا دے!‘‘۔
اس بار جو آواز آئی تو اُس میں چھپی مسکراہٹ میں نے صاف محسوس کی۔اللہ میاں نے کہا۔
’’اسی لئے ہم نے کہا ہے انسان بہت جلد باز اور خسارے میں رہنے والا ہے۔ہماری مصلحتوں کو نہیں سمجھتا اور اپنی طرف سے ہمارے کارخانے میں مِین میخ نکالتا رہتا ہے۔بد بخت ایک دفعہ اُس گھر میں جا تو سہی!‘‘۔
میری آنکھ کھلی تو میرا جسم پسینے سے تر تھا اور دُور کہیں سے فجر کی اذان سنائی دے رہی تھی۔
No comments:
Post a Comment