زندگی
کے ساتھ ساتھ ہمارے دوست بھی کم ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ یادوں سے محو ہو جاتے
ہیں، کچھ دل سے اُتر جاتے ہیں اور کچھ نظروں سے گر جاتے ہیں۔ دوستوں کی
تعداد کتنی ہے کوئی معنی نہیں رکھتی، اگر کچھ معنی رکھتا ہے تو یہ کہ ان
میں کتنے سچے ہیرے ہیں جو لفظ دوستی کے معنوں پر پورے اترتے ہیں۔
Wednesday, 10 June 2015
Kitab Sheher e Arzoo se Iqtibas
انسان بڑی دلچسپ مخلوق ہے۔ یہ جانور کو مصیبت میں دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتا لیکن انسان کو مصیبت میں مبتلا کر کے خوش ہوتا ہے۔
.
یہ پتھر کے بتوں تلے ریشم اور بانات کی چادریں بچھا کر ان کی پوجا کرتا ہے۔ لیکن انسان کے دل کو ناخنوں سے کھروچ کے رستا ہوا خون چاٹتا ہے۔
.
انسان اپنی کار کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس کا ماتھا پونچھتا اور اس کے پہلو چمکاتا ہے اور میلے کچیلے آدمی کو دھکے دے کر اس لیے پرے گرا دیتا ہے کہ کہیں ہاتھ لگا کر وہ اس مشین کا ماتھا نہ دھندلا کر دے ۔
.
انسان پتھروں سے مشینوں سے جانوروں سے پیار کر سکتا ہے انسانوں سے نہیں۔
اشفاق صاحب کی کتاب شہر آرزو سے اقتباس
Punjab ki Ek Lok Kahani
بیٹے نے جوان ہوتے ہی پر پرزے نکالنے شروع کردیے۔ اوباش اور آوارہ لوگوں کی صحبت میںبیٹھنے لگا۔ جوچیز ہاتھ لگتی دوستوں کو کھلا دیتا۔ بوڑھے باپ نے جب ایک دوبار سمجھانے کی کوشش کی تو کہنے لگا، بابا آپ بلاوجہ میرے دوستوں کی مخالفت کرتے ہیں،جیسےمیرے دوست ہیںایسے تو دنیا میں کسی کے ہو ہی نہیںسکتے۔ میرے پسینے کی جگہ خون بہانے کو تیار رہتے ہیں۔ بوڑھے باپ نے کہا ، بیٹے ایک دن پچھتاؤ گے اور پھر کہو گے کہ باپ ٹھیک ہی کہتا تھا۔ بیٹے پر جوانی کا بھوت سوار تھا اور آوارہ دوستوں کی صحبت نے اس کے کان بند کردیے تھے۔ بالاخر اس نے گھر کی ہر چیز ٹھکانے لگا دی۔ جب لڈو ختم ہوئے تو اس کے یاروں نے بھی منہ چرانا شروع کردیا اور ایک ایک کرکے کھسک گئے۔ نوجوان کی یہ حالت ہوئی کہ اس کا دوستی کے رشتے سے ہی ایمان اٹھ گیا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اب دوستی کے رشتے کو کوستا۔ باپ نے ایک دن اسے کہا، چل میرے ساتھ ، وہ باپ کے ساتھ چل پڑا۔ رات گئے وہ ایک گاؤں میں پہنچے۔ باپ نے کہا یہ میرے دوست کا گھر ہے تمھیںپتا چل جائے گا کہ دوست کیا ہوتے ہیں۔ باپ نے دستک دی، اندر سے کھسر پھسر کی آواز سنائی دی، پھر پوچھا گیا کون ہے؟
نوجوان کے بوڑھے باپ نے اپنا نام بتایا۔ مگر دروازہ نہ کھلا جب کافی دیر ہو گئی تو بیٹے نے کہا یہ ہے آپ کا دوست جس پر آپ کو بڑا ناز تھا۔۔۔ابھی تک دروازہ نہیںکھولا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور گھر کا مالک باہر نکلا، اس نے بوڑھے کو سینے سے لگایا، نوجوان کے سر پر پیار کیا اور بولا ۔۔۔ معاف کرنا دیر ہو گئی تم برسوں کے بعد آئے تھے سوچا ۔۔۔۔کوئی کام ہو گا اگر کسی سے بدلہ لینا ہے تو میری تلوار تیار ہے حکم کرو، ساتھ چلتا ہوں، روپے کی ضرورت ہے تو میں نے جو پیسے دبا رکھے تھے سب نکال کر رکھ دیے ہیں لے لو۔ اور اگر بیٹے کے لیے رشتہ درکار ہے تو بیٹی دلہن کی طرح سجی بیٹھی ہے، نکاح پڑھواؤ اور اسے لے جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(پنجاب کی ایک لوک کہانی)
Kya Aap ne Hamesha Zinda hi Rehna Hai ?
کیا آپ نے کبھی جہاز کا سفر کیا ہے؟ اگر نہیں کیا تُو کوئی بات نہیں ٹرین کا سفر تُو ضرور کیا ہوگا آپ نے۔۔۔
کیا آپ نے کبھی یہ غور کیا کہ سفر جہاز سے ہُو یا کہ ٹرین سے۔ ہر سفر تکلیف دہ ضرور
ہوتا ہے اس سفر میں کئی پابندیاں آپ کی ذات پر لاگو کردی جاتی ہیں جنہیں آپ باہمی
رضامندی سے قبول بھی کرلیتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ کو ایک خاص نشست تک محدود کردِیا جاتا ہے ۔ لیکن آپ بِلا چُوں چِراں مان جاتے ہیں۔
آپ کو اس سفر میں دورانِ سفر یہ آزادی نہیں ُہوتی کہ آپ اپنی مرضی سے دوران سفر چہل قدمی کرتے ہُوئے اندر باہر جاسکیں بلکہ جہاز کے سفر میں تُو آپ کو سیٹ بیلٹ سے باندھ دِیا جاتا ہے اور آپ اعتراض بھی نہیں کرتے۔
اِسی طرح ٹوائلٹ کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کے باوجود بھی آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوتی حالانکہ ٹرین کے مُقابلے میں ہوائی جہاز کا ٹُوائلٹ اسقدر تنگ ہُوتا ہے کہ خبر ہی نہیں ہو پاتی کہ کب شروع ہوا ۔ اور کب خَتم بھی ہو گیا۔
چاہے وہ ائيرپورٹ ہو۔ یا ریلوے اسٹیشن عموماً دھکم پیل کی وجہ سے آپ کو ایذا پُہنچتی ہے لیکن آپ خاموش رِہتے ہیں اور زیادہ واویلا نہیں مَچاتے ۔
کبھی سَخت سردی اور کبھی چلچلاتی دُھوپ کو مُناسب انتظام نہ ہُونے کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن کبھی کوئی مُسافر اسکی بھی شکایت نہیں کرتا اور نہ ہی آپ نے آج تک کوئی ایک ایسی مِثال سُنی ہوگی کہ موسم کی سختی سے بچنے کیلئے کسی مُسافر نے کسی ریلوے اسٹیشن پر کوئی سائبان تعمیر کیا ہُو یا کوئی کمرہ بنایا ہُو۔
آخر کیوں لوگ اس طرح کی عمارت کسی ریلوے اسٹیشن پر اپنی آسانی کیلئے تعمیر نہیں کرتے؟
کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ تکلیفیں عارضی ہیں۔ کس مُسافر کو پَڑی ہے کہ عارضی جگہ پر عمارتیں تعمیر کراتا پھرے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہمیں کونسا ہمیشہ اس پلیٹ فارم پر رِہنا ہے۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ انتظار گاہ ہے نا کہ آرام گاہ۔ اِسی واسطے تکلیف چاہے ٹرین کے سفر میں درپیش ہُو یا جہاز کے سفر میں، ہر ایک ہَنس کر اِن تکالیف کو برداشت کرلیتا ہے کہ وہ جانتا ہے یہ تکلیف عارضی ہے ، یہ ٹھکانہ بھی عارضی ہے اور آگے منزل ہے جس پر پُہنچ کر آرام ہی آرام ہے۔
ذرا ٹھہریئے۔ یہاں رُک جایئے۔
کیا یہ دُنیا ریلوے اسٹیشن کی طرح نہیں؟
کیا یہ عارضی ٹھکانہ نہیں؟
کیا ہمیشہ ہمیں یہیں رِہنا ہے یا ہماری منزل کہیں اور ہے؟
کیا آپ نے کبھی پلٹ کر اپنی گُذشتہ زندگی کے سفر کے متعلق سوچا؟ کیا آپکو نہیں لگتا کہ جو زندگی آپ گُزار آئے ہیں ۔ وہ چاہے بیس برس ہو یا کہ ساٹھ برس کی کیوں نہ ہو ۔ کیا ایسا محسوس نہیں ہُوتا کہ جیسے ابھی دُنیا میں آئے چند ہی لمحے ہوئے تھے اور ہم زندگی کے کئی سنگ میل عبور کرآئے۔
کیا کل ہمارے بُزرگ بچے ، نوجوان ، اور جوان نہیں تھے؟
کیا آپکو ایسا محسوس نہیں ُہوتا کہ سال پلک جھپکتے ہُوئے گُزر رہے ہیں ابھی ایک عید جاتی نہیں کہ دوسری عید سر پہ آکھڑی ہُوتی ہے۔
اور آخر ہم کِس کو دھوکا دے رہے ہیں؟ کہیں ہم خُود کو تُو یہ دھوکا نہیں دے رہے؟
کہیں یہ دُنیا کا سفر ايسا سفر تو نہیں جسے منزل سمجھ کر ہم اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور اسکی زیبائیش میں اتنے مگن ہیں کہ اب تو گاڑی چھوٹ جانے کا خُوف بھی ہمارے دِل سے نِکل چُکا ہے؟
منقول
Saturday, 23 May 2015
Fariha Nigarina - Jaun Elia Poetry
Jaun Elia Ghazals & Poetry
تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے
مجھ کو فکر رہتی ہے آپ انہیں گنوا دیجے
آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں یہ بہت بُرا ہو گا
میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ
زشکِ سروِ سیمینا
اے بہ نازُکی مینا
اے بہ جلوہ آئینہ
میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا
سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی
کہکشاں لُٹا دوں کیا
جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی
میں انہیں گنوا دوں کیا
لوحِ دل جلا دوں کیا
کہکشاں لُٹا دوں کیا
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید
جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم
جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے
اے مری فروزینہ!
دل کی جانِ زرّینا!
رنگ رنگ رنگینا!
بات جو ہے وہ کیا ہے
تم مجھے بتاؤ تو ۔۔۔۔۔
میں تمہیں نہیں سمجھا
تم سمجھ میں آؤ تو
جُرم کیوں کیے تم نے ؟
خط ہی کیوں لکھے تم نے ؟
Download Urdu Quotes & Poetry Collection
تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجے
مجھ کو فکر رہتی ہے آپ انہیں گنوا دیجے
آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں یہ بہت بُرا ہو گا
میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ
زشکِ سروِ سیمینا
اے بہ نازُکی مینا
اے بہ جلوہ آئینہ
میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا
سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی
کہکشاں لُٹا دوں کیا
جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی
میں انہیں گنوا دوں کیا
لوحِ دل جلا دوں کیا
کہکشاں لُٹا دوں کیا
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید
جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم
جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے
اے مری فروزینہ!
دل کی جانِ زرّینا!
رنگ رنگ رنگینا!
بات جو ہے وہ کیا ہے
تم مجھے بتاؤ تو ۔۔۔۔۔
میں تمہیں نہیں سمجھا
تم سمجھ میں آؤ تو
جُرم کیوں کیے تم نے ؟
خط ہی کیوں لکھے تم نے ؟
Download Urdu Quotes & Poetry Collection
A Little About Jaun Elia
Jaun Elia accepted that artists were simple jokesters; performers at the best. He never preferred them much. He never tried to be one. In his prelude to 'Shaayad', his first lovely compilation, and the stand out which turned out amid his lifetime, he makes clear that he would not trade off on anything not as much as prophethood. Henceforth, he cherished preislamic agnostic Arabia, and took motivation from Kahins. He carried on with an existence of an agnostic, and he kicked the bucket as one. Subsequently, calling Jaun Elia a writer, or contrasting him and other Urdu writers, is really deprecating Jaun.
Jaun's information and comprehension of eastern and western methods of insight, history of religions, rationale, worldwide writing and governmental issues was so incomprehensible and profound that writers like Majaz and Jigar could just delight him for a brief time of time. It is along these lines nothing unexpected that his cherished artists hailed from the Arabian landmass, Babylon, and Persia, with a special case of Meer Taqi Meer, whom he considered the most underrated Urdu writer of all times. He condemned Ghalib unendingly. He used to say 'Mian Ghalib to pachchees sheroN ka shaa'ir tha' (Ghalib had just 25 great couplets). By that he implied that Ghalib had no usloob (no curious style he could call his own) not at all like Urfi, Khusro, or Meer. Before Jaun, just Yaganah had the mettle to make such a remark about Ghalib.
Jaun Elia was an aalim in the genuine feeling of the word. He had an order over numerous dialects including Arabic and Persian, and like his dad he could likewise read Sanskrit and Hebrew. He had a broad information of the historical backdrop of reasoning, religion, Islamic otherworldliness, and even Kabbalah, the supernatural part of Judaism. Along these lines, you will discover in his verse and writing follows from the Old Testament, the Bible, and the Quran; philosophical talks of the Mutazilite scholars, preislamic Arabian writers, and in addition references from Kant, Nietzsche and Sartre. There is not really any current Urdu writer who can claim to have intertwined such enhanced learning frameworks with blood expectorating Romanticism and enthusiasm. No big surprise Jaun Elia motivated individuals like Baba-i-Urdu, Maulvi Abdul Haq, to stand up in his honor when he was just in his late 20s.
Jaun Elia's first accumulation of sonnets "Shaayad" was distributed when he was 58. He has written in the introduction to "Shaayad" that he procrastinated distributed his first book for almost 30 years. As indicated by Jaun Elia, he guaranteed his dad Allama Shafique Hasan Elia, a researcher of the most noteworthy request, that he would distribute his works when he grew up. Jaun didn't distribute them. Jaun didn't grow up. Some way or another all original copies of Allama Elia's compositions got lost and Jaun experienced a feeling of remorse so awful that he hated the thought of distributed his own particular works, which he considered mediocre in examination to his dad's compositions. While Jaun's nazms and ghazals turned out to be immensely famous among the artistic and scholarly circles of Pakistan not long after his movement from Amroha in 1957, there was no gathering of his sonnets that could contact the masses. Jaun, accordingly, remained generally in insensibility till the late 1980s.
As indicated by Jaun Elia, it was the late Saleem Jaffri who constrained him to distribute his first book. "Shaayad" (1989) turned out to be monstrously prevalent with educated people and also the masses. Anyhow, Jaun constantly scorned the thought of distributed his work. 'Yaani', his second book, came after death in 2003, which Jaun Elia had deferred again for quite a long while. It was Khalid Ahmed Ansari, who, after Jaun Elia's passing, distributed the principle corpus of his works.
Khalid Ahmed Ansari to Jaun Elia is the thing that Max Brod was to Kafka. The universe of Urdu writing will stay everlastingly obligated to Mr. Ansari for his administrations to Jaun Elia specifically and Urdu writing by and large. 'Gumaan', 'Lekin', and 'Goya', were distributed by Mr. Ansari in the compass of eight years, which was never a simple errand. Jaun's compositions were scattered and barely intelligible. Mr. Ansari needed to experience every last lyric before making it open. It likewise included a lot of examination take a shot at Jaun. Jaun was a bohemian writer, and he never minded to aggregate his ballads in a fitting way. Nowadays Khalid Ansari is chipping away at Jaun's new accumulations, 'KuooN', and 'Nai Aag Ka Ehadnaama', Jaun's epic chronicled lyric embodied alwaah. Jaun's composition work is likewise being incorporated by Mr. Ansari. 'Farnood', a gathering of Jaun's papers is going to hit the stores.
Jaun's life can't be outlined in few passages. He was excessively baffling, excessively overwhelming to be described in words. Maybe, Jaun's life and his verse can be better seen through his representation on Shaayad's spread, deified by eminent craftsman and Jaun's nephew Iqbal Mehdi. The representation is reminiscent of John Milton's showstopper 'Heaven Lost'. It catches the minute when Lucifer ascents up against the power of God. Jaun constantly looked downward on creation, loathed authority–both common and awesome. His verse, consequently, is not an affection tune or a requiem; it is a serenade of an agitator. By perusing Jaun Elia you will leave upon the odyssey to doubtful information, Agnosticism, and Nihilism. It will make you never-endingly bothered, for this was something Jaun needed his perusers to be—stay hungry for information. In this manner, Jaun will keep on rousing the individuals who challenge, who uncertainty, and who set out to battle against conventionality and orthopraxy.
As all would bite the dust, so did Jon Elia. Amid the most recent 40 years Death gazed in his face numerous a period however he continued escaping it. An unending TB understanding in the mid-50s, he got away from the grasp of Death because of sheer self discipline. May be his intense confidence in the eternality of his verse defeated the continuous summons of Death. At long last he bowed out on 7th November, abandoning a large number of his fans to grieve his misfortune.
I saw, more than five many years of close relationship with him, various clumps of youthful artists securing to him for motivation and direction however it is an incongruity of reality that relatively few of them turned out to be their primary ethicalness. One saw them vanishing in meager air imagining that they had harvested the harvest and could get by and by. I would prefer not to name various artists and journalists who profited from Jon Elia's Greek Academy like talks on rationality and ve
..
Saturday, 16 May 2015
Tasveer - Afsana Az Baidakht Zahra Jamaal - تصویر بیدخت زاہرا جمال
شام کافی سرد تھی۔پہاڑوں سے ٹھنڈی ہوائیں شائیں شائیں کرتی گزر رہی تھیں۔مگر ہال کے اندر ہلکی ہلکی بدن کو ٹکور کرنے والی حرارت تھی۔ہال سامعین و حاضرین سے بھرا ہوا تھا۔مصوری کے موضوع پر کانفرنس تھی تو وہ بھی چلا آیا۔سٹیج کی پشت پر لگی بڑی سکرین پر slide showمیں تصویریں چل رہی تھیں۔وہ مقرر کی تقریر سے زیادہ ان تصویروں کے سحر میں کھویا ہوا تھا کہ اسے اپنے بائیں طرف سے ہلکی سی خوشبو آئی۔۔۔۔۔مفلر کے اندر اچھی طرح لپٹی ہوئی گردن کو اس نے ہلکا سا موڑا تو آنکھیں سیدھی اس کے ماتھے کے ساتھ جا ٹکرائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہاں سے پھسلیں تو اس کی آنکھوں پر جا کے اٹک گئیں۔۔وہ بھی اس کی طرف دیکھ چکی تھی
ہائے کیا حال ہے؟؟؟اس نے ہاتھ آگے بڑھایا
ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھی لگ رہی ہو۔۔۔۔وہ ہاتھ تھامتے ہوئے بولا
کب آئی ہو؟؟؟؟
آج ہی آئی ہوں۔۔
بتا دیتی۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا فرق پڑتا ہے ۔۔مل تو گئے ہم۔۔
ہمسائے جو ہیں۔۔ہمسایہ ٹھنڈ میں گرم چادر کی بکل جیسا ہوتا ہے جب دیا ر غیر میں ملے
عجیب سی سرشاری کے ساتھ اس نے اس کے ہونٹوں کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔۔۔۔تمہاری اس لپ اسٹک کا رنگ کون سا ہے؟
جامنی ہے۔۔۔۔۔وہ پھر مسکرائی
ایک دلنواز سی حدت پھیل کر اس کو گھیرے میں لے رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔ساتھ ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کے سانسوں کو محسوس کرنا بھی ایک راحت ہے۔۔مقرر کیا کہہ رہا تھا اس نے نہیں سنا۔۔اس کی ساری حسیات ساتھ والے سانسوں پر مرتکز تھیں جو اس کے سانسوں کے ساتھ مل کر ہالہ بنا رہے تھے ۔درد جو ہر وقت بدن کو کاٹتا رہتا تھا اس وقت کہیں سو گیا تھا۔اس نے مفلر پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔بعض جسموں کی محض موجودگی ہی روح کو سرشار کر دیتی ہے۔وہ اس وقت سامنے کی طرف متوجہ ہوچکی تھی۔۔اس کو اس خیال سے ہی تسکین ہوئی کہ وہ اسکے ساتھ بیٹھی سانس لے رہی ہے
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے اختیار اس نے گلزار کی یہ لائن پڑہی
جیے جاتے ہیں ۔۔۔جیے جاتے ہیں
عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں
جیے جانا بھی کیسی عادت ہے۔۔۔وہ مسکرائی
تم ہر وقت جس درد کو کاٹتے ہو نا! وہ میری روح کو بھی چھیدتا رہتا ہے۔۔۔۔وہ سرگوشی میں بولی
وہ مسکرا نے لگا۔خیال جانے کیاں غوطہ کھا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جامنی رنگ جب پھیلتا ہے تو شفق کی تصویر بن جاتا ہے۔۔۔جس کے نیچے سمندر بہہ رہا ہو۔جامنی رنگ کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔۔لہر کے اوپر لہر آتی ہے۔۔وہ زندہ ہے،جیتا ،جاگتا،توانا،کف اڑاتا ہوا، رواں دواں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے اندر حیات یے۔۔وہ دیکھو
اس نے انگلی سے سکرین کی طرف اشارہ کیا۔۔۔وہ حیرت سے اس کو تک رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کہہ رہے ہو تم؟؟؟؟سکرین پر تو "دی لاسٹ سپر" دکھائی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔چلو اٹھو کہیں چلتے ہیں
ہال کی سیڑھیاں چڑھ کر وہ باہر آگئے۔۔۔باہر رات سیاہ اور تاریک تھی۔۔۔وہ ساتھ ساتھ چلنے لگے۔۔۔رات ان کے آس پاس سے ہو کر گزرنے لگی
کیسا ہے تمہارا وہ؟
ٹھیک ہی ہوگا میری بہت دنوں سے بات ہی نہیں ہوئی
کیوں اتنے عرصے تک لا تعلق کیوں ہو جاتی ہو تم؟؟؟؟؟؟؟؟
شاید ہم دونوں ایک جیسے ہیں اس لیے
مقناطیس کے دو ایک جیسے پول ایک دوسرے کو دور دھکیلتے ہیں۔۔۔اور دو مخالف پول کھنچ کر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ مقنا طیس ہوتا ہے انسان نہیں۔۔۔وہ چڑ گئی
پتا نہیں کیوں تم لوگوں نے مادی اشیا کے خواص اور زمہ داریوں کوانسانی تعلقات اور رویوں کے ساتھ جوڑ لیا ہے۔۔لوہے اور پتھروں کی مثالیں لے کر آ جاتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریکی ان کے آس پاس سے سرک رہی تھی۔۔دونوں بہت قریب قریب چل رہے تھے۔۔۔وہ اس کے ساتھ چلتا رہا۔اس کو چھونے کی خواہش اس کے لہو کے خلیوں کے اندر جڑ پکڑ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر وہ لا تعلقی سے چلتی رہی
عجیب عورت ہے یہ۔۔۔۔پھیکی،گہری،الگ الگ،آزاد۔۔۔۔۔بے ربط لفظ اور خیالات جیسے کہ شدید خواہش میں کسی سبب کے قابو نہ آسکنے پر کسی شخص کے ہوتے ہیں اس کے دماغ سے نکل نکل کر ٹھنڈے برفائےہوئےاندھیرے میں گم ہوتے گئے۔۔۔
اس کا مرکز سلامت تھا۔۔وہ اپنے مرکز کو بچائے ہوئے تھی۔۔۔۔پھیکی ،بے رنگ ،گہری اور الگ تھلگ۔۔۔۔۔وہ جانتا تھا کہ اس کی اس کو چھونے کی خواہش تشنہ تکمیل رہے گی
بوڑھا مصور رنگوں کے سٹروک لگا رہا تھا۔۔۔۔سٹروک پر سٹروک لگائے جا رہا تھا۔رنگ بکھر رہے تھے۔پھیل رہے تھے۔۔۔وہ سنگی مجسمے کی طرح پتھرائی ہوئی بیٹھی تھی۔۔۔۔بوڑھا اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔۔۔وہ وحشیانہ انداز میں سٹروک پہ سٹروک لگا رہا تھا۔۔۔رات کے منتشر اور آوارہ ٹکڑے ادھر ادھر کونوں کھدروں،سوراخوں،اور نیچی چھت کے گھروں کے اندر پناہ لئے ہوئے تھے۔۔۔۔۔دن دھندلایا ہوا تھا۔۔۔سارے رنگ،سبھی رنگ ،اپنی اپنی شناخت سے ورا ہی ورا تصویر کے قالب میں ڈھلتے جا رہے تھے
مصور تھک ہار کر بیٹھ گیا اور کنج لب کو زرا کھینچ کر اور ایک آنکھ کو قدرے میچ کراس نے طنزیہ اس کی طرف دیکھا۔۔۔مصور نے رنگوں کے ساتھ کھلواڑ کیا تھا
آنکھ سے اوجھل پس منظر اور پیش منظر میں اتنے رنگ بھر دیئے تھے کہ ناظر کی آنکھ اس کے مرکز کی طرف جا ہی نہ سکتی اور راستے کے رنگوں کے بھٹکاوے کا شکار ہو جاتی تھی
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر سامنے آئی۔۔۔کینوس پر رنگوں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔
نیلے،پیلے،سرخ،سبز،جامنی،کاسنی،سرمئی رنگوں کے دریا اس کے ہاتھوں کے ناخنوں سے پھوٹ بہے۔۔۔بصارت کو رنگوں نے لپیٹ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تصویر مکمل تھی

Famous Urdu Poetry of Sub-Continent
Urdu Poetry & Shayari is a standout amongst the most clear and bright fields of verse that is read with much eagerness and esteem even in the contemporary world. Probably the most acclaimed Urdu artists who have made monstrous commitment in this handle have been examined in our related segments. The commitment made by these Urdu dialect writers is gigantic and worth increasing in value. They have motivated and kept on moving numerous logicians. Their works keep on captivating and flabbergast perusers even today. Urdu artists have constrained themselves to Urdu, as well as have tried different things with dialects like Persian, Hindi and Arabic. India has had its share of celebrated Urdu writers and has safeguarded the inestimable fortune of their delightful lovely works for our present and future era. Urdu verse has had its beginning in Arabia and Persia but India is very impacted by this field of verse and there have been numerous acclaimed artists who composed Urdu verse in India. A large portion of these Urdu artists in India utilized pseudonyms or pen names as 'Takhallus'. This word is gotten from Arabic and it signifies 'finishing'. This nom de plume was altered toward the end of a writer's name and the customary method for distinguishing a Urdu artist was by taking the pseudonym. Likewise, when a writer composed a sonnet or a ghazal, his pseudonym would be consolidated toward the end of the ballad as a mark. The writers examined in our related areas are as per the following:
Ali Sardar Zafri Ali Sardar Zafri was conceived in Balrampur, Uttar Pradesh. He came to Mumbai in 1942 and made it his home. Captured for composing against British lead in India, Zafri was among the votaries of the dynamic development in Urdu writing. Zafri 's scholarly profession started at the youthful age of 17.
Amir Khusro
Amir Khusro, a standout amongst the most flexible identities of medieval India, was conceived in 1253 in a spot called Patiyali, Uttar Pradesh. His genuine name was Ab'ul Hasan Yamin al-Din Khusrow though Amir Khusro was his pseudonym. Otherwise called Amir Khusro Dehlavi, this innovative established artist was connected with the imperial domains of more than seven leaders of Delhi. Bahadur Shah Zafar The last Mughal ruler of India, Bahadur Shah Zafar II (1775-1862) was conceived Abu Zafar Sirajuddin Muhammad Bahadur Shah Zafar and was an extremely celebrated Urdu artist in his times. His lyrics are still read with much energy and profound respect among the various Urdu verse fans. Daag Dehlvi Nawab Mirza Khan Daag otherwise called Daag Dehlvi was conceived in 1831 in Delhi. His dad passed on when he was everything except 6 years old and that is the reason his stepfather, Mirza Muhammed Fakhroo, brought him up. His dad, Nawab Shams-ul-racket Khan, was hanged till death as a discipline for an associated engagement in the homicide with the then British Resident of Delhi, Sir William Fraser. Firaq Gorakhpuri Firaq Gorakhpuri was conceived Raghupati Sahay in the year 1896 at Gorakhpur District of Eastern Uttar Pradesh. Destined to a group of privileged people, Firaq had an essence of Urdu verse at extremely young age. He began composing verse in Urdu in adolescents and added to his own particular corner in a period that was stamped by the preferences Gulzar was conceived Sampooran Singh at Deena in Pakistan in the year 1934. After parcel in 1947, he came to Delhi. Gulzar began his vocation as a partner to praised chief Bimal Roy and Hrishikesh Mukherjee. He began his vocation as a lyricist with Bimal Roy's Bandini. Javed Akhtar One name that is synonymous with sentiment, style and Urdu verse in contemporary India is that of Javed Akhtar. This popular lyricist and musician was conceived on January 17th 1945 in Gwalior. The life history of Javed Akhtar is a thrill ride and the quantity of distinctions to his name is a perpetual rundown that is as yet developing. Kaifi Azmi Born as Akhtar Hussain Rizvi in a group of proprietors of a residential area of Uttar Pradesh, Kaifi Azmi was an exceptionally prestigious Urdu writer of India. Despite the fact that his dad, Syed Fateh Hussain Rizvi was a landowner, he additionally acted as a Tehsildar in a little state in Uttar Pradesh. Majaz, uncle to the popular contemporary lyricist Javed Akhtar, was conceived in Barabanki area of Uttar Pradesh in 1909-10. In the wake of finishing his beginning training from Lucknow and Agra, Majaz moved to Aligarh for his higher studies. He finished his graduation from Aligarh Muslim University in 1936. Meer Taqi Meer Syed Amanullah Meer Taqi was the main child of a Sufi holy person, Meer Muttaqi. At the point when Meer was a little youngster, his dad taking a gander at his face used to say what this flame is which is blazing inside of your heart that is pondering your face. Living in a climate of Sufism at an exceptionally youthful age had significant impact on Meer. Meher Baba Huma Meher Baba Huma was a renowned profound pioneer of India. He was conceived in Merwan Sheriar Irani on February 25th 1894. He drove a typical life and grew up like some other kid, going to class and school and completing instruction. The life history of Meher Baba is an exceptionally intriguing and a phenomenal occasion. Amid his initial years he demonstrated no slant towards otherworldly existence. Mirza Ghalib One of the best-known Urdu artists of all times, Mirza Ghalib is a name that is synonymous with Urdu verse. Conceived Mirza Asadullah Baig Khan, Ghalib was a nom de plume he embraced. It is similar to a pen name most writers and authors receive in the abstract world. The life history of Ghalib is genuinely intriguing and Ghalib's memoir in reality makes a decent read. Momin Khan Momin Khan Momin, an incredible Urdu Poet of 19th century, was conceived in respectable Delhi group of doctors in the year 1801. He utilized "Momin" as his takhallus. It is the Urdu of 'pseudonym'. His basic and advanced education was finished in different Madarsas in Delhi, where he concentrated on Arabic and Persian. Momin Khan Momin was skilled with a multifaceted identity. Mohammad Ibrahim Zauq One of the best Urdu writers of all times, Mohammad Ibrahim Zauq is viewed as one of the pioneers of Urdu verse. He was conceived in 1789 in a poor family and had an exceptionally normal instruction. Yet his fortune of Urdu lyric and ghazals were enormous and are viewed as extremely valuable today. Zauq was the nom de plume of Sheik Muhammad Iqbal One of the best Urdu writers in the contemporary world, Allama Muhammad Iqbal is acclaimed for his verse in Urdu and Persian. He is additionally given much kudos for his deals with political and religious theory in Islam. The life history of Allama Muhammad Iqbal is exceptionally intriguing and this segment titled as Allama Muhammad Iqbal memoir might issue you additional data about his life. Nida Fazli Muqtida Hasan Nida Fazli, conceived in 1938 in Delhi, is a famous Urdu writer and lyricist. His verse is frequently portrayed as ailing in any solitary character consequently opposing slick classifications. His verse mirrors the checkered directions of a writer who "went in numerous bearings".
Urdu Magazine for Android
Ali Sardar Zafri Ali Sardar Zafri was conceived in Balrampur, Uttar Pradesh. He came to Mumbai in 1942 and made it his home. Captured for composing against British lead in India, Zafri was among the votaries of the dynamic development in Urdu writing. Zafri 's scholarly profession started at the youthful age of 17.
Amir Khusro
Amir Khusro, a standout amongst the most flexible identities of medieval India, was conceived in 1253 in a spot called Patiyali, Uttar Pradesh. His genuine name was Ab'ul Hasan Yamin al-Din Khusrow though Amir Khusro was his pseudonym. Otherwise called Amir Khusro Dehlavi, this innovative established artist was connected with the imperial domains of more than seven leaders of Delhi. Bahadur Shah Zafar The last Mughal ruler of India, Bahadur Shah Zafar II (1775-1862) was conceived Abu Zafar Sirajuddin Muhammad Bahadur Shah Zafar and was an extremely celebrated Urdu artist in his times. His lyrics are still read with much energy and profound respect among the various Urdu verse fans. Daag Dehlvi Nawab Mirza Khan Daag otherwise called Daag Dehlvi was conceived in 1831 in Delhi. His dad passed on when he was everything except 6 years old and that is the reason his stepfather, Mirza Muhammed Fakhroo, brought him up. His dad, Nawab Shams-ul-racket Khan, was hanged till death as a discipline for an associated engagement in the homicide with the then British Resident of Delhi, Sir William Fraser. Firaq Gorakhpuri Firaq Gorakhpuri was conceived Raghupati Sahay in the year 1896 at Gorakhpur District of Eastern Uttar Pradesh. Destined to a group of privileged people, Firaq had an essence of Urdu verse at extremely young age. He began composing verse in Urdu in adolescents and added to his own particular corner in a period that was stamped by the preferences Gulzar was conceived Sampooran Singh at Deena in Pakistan in the year 1934. After parcel in 1947, he came to Delhi. Gulzar began his vocation as a partner to praised chief Bimal Roy and Hrishikesh Mukherjee. He began his vocation as a lyricist with Bimal Roy's Bandini. Javed Akhtar One name that is synonymous with sentiment, style and Urdu verse in contemporary India is that of Javed Akhtar. This popular lyricist and musician was conceived on January 17th 1945 in Gwalior. The life history of Javed Akhtar is a thrill ride and the quantity of distinctions to his name is a perpetual rundown that is as yet developing. Kaifi Azmi Born as Akhtar Hussain Rizvi in a group of proprietors of a residential area of Uttar Pradesh, Kaifi Azmi was an exceptionally prestigious Urdu writer of India. Despite the fact that his dad, Syed Fateh Hussain Rizvi was a landowner, he additionally acted as a Tehsildar in a little state in Uttar Pradesh. Majaz, uncle to the popular contemporary lyricist Javed Akhtar, was conceived in Barabanki area of Uttar Pradesh in 1909-10. In the wake of finishing his beginning training from Lucknow and Agra, Majaz moved to Aligarh for his higher studies. He finished his graduation from Aligarh Muslim University in 1936. Meer Taqi Meer Syed Amanullah Meer Taqi was the main child of a Sufi holy person, Meer Muttaqi. At the point when Meer was a little youngster, his dad taking a gander at his face used to say what this flame is which is blazing inside of your heart that is pondering your face. Living in a climate of Sufism at an exceptionally youthful age had significant impact on Meer. Meher Baba Huma Meher Baba Huma was a renowned profound pioneer of India. He was conceived in Merwan Sheriar Irani on February 25th 1894. He drove a typical life and grew up like some other kid, going to class and school and completing instruction. The life history of Meher Baba is an exceptionally intriguing and a phenomenal occasion. Amid his initial years he demonstrated no slant towards otherworldly existence. Mirza Ghalib One of the best-known Urdu artists of all times, Mirza Ghalib is a name that is synonymous with Urdu verse. Conceived Mirza Asadullah Baig Khan, Ghalib was a nom de plume he embraced. It is similar to a pen name most writers and authors receive in the abstract world. The life history of Ghalib is genuinely intriguing and Ghalib's memoir in reality makes a decent read. Momin Khan Momin Khan Momin, an incredible Urdu Poet of 19th century, was conceived in respectable Delhi group of doctors in the year 1801. He utilized "Momin" as his takhallus. It is the Urdu of 'pseudonym'. His basic and advanced education was finished in different Madarsas in Delhi, where he concentrated on Arabic and Persian. Momin Khan Momin was skilled with a multifaceted identity. Mohammad Ibrahim Zauq One of the best Urdu writers of all times, Mohammad Ibrahim Zauq is viewed as one of the pioneers of Urdu verse. He was conceived in 1789 in a poor family and had an exceptionally normal instruction. Yet his fortune of Urdu lyric and ghazals were enormous and are viewed as extremely valuable today. Zauq was the nom de plume of Sheik Muhammad Iqbal One of the best Urdu writers in the contemporary world, Allama Muhammad Iqbal is acclaimed for his verse in Urdu and Persian. He is additionally given much kudos for his deals with political and religious theory in Islam. The life history of Allama Muhammad Iqbal is exceptionally intriguing and this segment titled as Allama Muhammad Iqbal memoir might issue you additional data about his life. Nida Fazli Muqtida Hasan Nida Fazli, conceived in 1938 in Delhi, is a famous Urdu writer and lyricist. His verse is frequently portrayed as ailing in any solitary character consequently opposing slick classifications. His verse mirrors the checkered directions of a writer who "went in numerous bearings".
Urdu Magazine for Android
Tuesday, 12 May 2015
10 Fun, Amazing & Interesting Facts about Urdu Language
Heart Touching Urdu Shayari & Quotes | Live Urdu Adab Posts
Urdu is a dialect which is connected with Muslims of Pakistan and India. Urdu is the national dialect of Pakistan & Lingua Franca and it is additionally the official dialect of 5 Indian states. Presently tell us some extremely fascinating actualities about Urdu dialect
Fascinating Facts about Urdu Language
#1: Language of Beauty & Grace
Urdu is a dialect of excellence and elegance, custom-manufactured for writing that adds intending to exposition and appeal to verse, a dialect that denoted the recognized from the unlearned and the respectable from the standard.
#2: National Language
Urdu, shortly the national dialect of Pakistan and the character image of Indian Muslims, is connected with Islam in South Asia. This union was produced amid British provincial standard when innovation initially affected India. The British supplanted Persian, the approved dialect of Mughal principle, with Urdu at the lesser level and English at the higher one in parts of North India and present-day Pakistan. Urdu was spread by systems of instruction and correspondence in pioneer India. It turned into the guideline medium in the Islamic theological colleges (madrasas) and the primary dialect of religious compositions. It likewise got to be a piece of the Muslim peculiarity and contributed, just to Islam, in preparing the Muslim group to request the formation of Pakistan, which was cut out of British India in 1947.
#3: One of the Official Language of India
Urdu, recognized from Hindi by its script and vocabulary, is likewise one of the official dialects of India. It is a standout amongst the most widely talked dialects of South Asia, and has achieved a more extensive circulation in different parts of the world, especially the UK, where it is viewed as their fundamental social dialect by most Muslims from Pakistan and northern India. Other than its noteworthy part as the boss vehicle of Islam in South Asia, Urdu has an imperative common writing, whose verse is unequivocally taking into account Persian models.
#4: Popular in Middle Eastern Counties
Urdu is likewise the official dialect of Pakistan and one of the formally perceived national dialects of India. Urdu is additionally talked by boss populaces in some Middle Eastern nations and South Asian groups in different nations.
#5: Popular among Muslims
In India, Urdu bolsters the Muslim minority against conservative Hindu mastery. Urdu plays many-sided and even conflicting parts in its relationship with Islam in Pakistan and parts of North India.
urdu dialect
#6: Academic Discipline
Urdu is a fundamental and most critical dialect in the event that you are occupied with any scholastic train that incorporates the investigation of South Asia — including law, prescription, business, horticulture, life sciences, humanities, and sociologies
#7: Significant Language
Urdu is on the rundown of critical dialects assembled by the U.S. State Department. To address the issue in the United States for the Urdu speakers, the State Department, among different organizations and establishments, offers aggressive grants for dialect study and travel abroad for understudies mulling over Urdu.
#8: Derived of Hindui
Urdu is not viewed as sacred in itself in light of the fact that it is not Arabic, despite the fact that it is composed in the Persian nastaʿlīq script which, thus, is in view of the Arabic calligraphic style called naskh. For every one of these importations of Muslim vocabularies, it is an inferred of Hindui or Hindvi, the guardian of both advanced Hindi and Urdu
#9: Rekhtah
Amid the period when Urdu turned into the dialect of Islam in South Asia, it was called Rekhtah, Hindi and, just now and again, Urdu. The standard, talked adaptation (bazaar Urdu) was and still is practically comparative with prevalent, communicated in Hindi. In this way, altogether size, the talked dialect is a fundamental dialect of the world
#10: Middle East to Christ
Urdu is a key dialect in coming to Pakistan and numerous other Middle Eastern nations. Another intriguing reality about Urdu dialect is that the Pastors and adult professors who needs to take in God's Word inside and out will be excited to have the Pentecostal study notes, maps, and editorial which have made the FIRE Bible a vital apparatus in preparing initiative and building the assemblage of Christ in that a piece of the world. Hence having Fire Bibles in the Urdu dialect is a key in winning the Middle East to Chr
Urdu is a dialect which is connected with Muslims of Pakistan and India. Urdu is the national dialect of Pakistan & Lingua Franca and it is additionally the official dialect of 5 Indian states. Presently tell us some extremely fascinating actualities about Urdu dialect
Fascinating Facts about Urdu Language
#1: Language of Beauty & Grace
Urdu is a dialect of excellence and elegance, custom-manufactured for writing that adds intending to exposition and appeal to verse, a dialect that denoted the recognized from the unlearned and the respectable from the standard.
#2: National Language
Urdu, shortly the national dialect of Pakistan and the character image of Indian Muslims, is connected with Islam in South Asia. This union was produced amid British provincial standard when innovation initially affected India. The British supplanted Persian, the approved dialect of Mughal principle, with Urdu at the lesser level and English at the higher one in parts of North India and present-day Pakistan. Urdu was spread by systems of instruction and correspondence in pioneer India. It turned into the guideline medium in the Islamic theological colleges (madrasas) and the primary dialect of religious compositions. It likewise got to be a piece of the Muslim peculiarity and contributed, just to Islam, in preparing the Muslim group to request the formation of Pakistan, which was cut out of British India in 1947.
#3: One of the Official Language of India
Urdu, recognized from Hindi by its script and vocabulary, is likewise one of the official dialects of India. It is a standout amongst the most widely talked dialects of South Asia, and has achieved a more extensive circulation in different parts of the world, especially the UK, where it is viewed as their fundamental social dialect by most Muslims from Pakistan and northern India. Other than its noteworthy part as the boss vehicle of Islam in South Asia, Urdu has an imperative common writing, whose verse is unequivocally taking into account Persian models.
#4: Popular in Middle Eastern Counties
Urdu is likewise the official dialect of Pakistan and one of the formally perceived national dialects of India. Urdu is additionally talked by boss populaces in some Middle Eastern nations and South Asian groups in different nations.
#5: Popular among Muslims
In India, Urdu bolsters the Muslim minority against conservative Hindu mastery. Urdu plays many-sided and even conflicting parts in its relationship with Islam in Pakistan and parts of North India.
urdu dialect
#6: Academic Discipline
Urdu is a fundamental and most critical dialect in the event that you are occupied with any scholastic train that incorporates the investigation of South Asia — including law, prescription, business, horticulture, life sciences, humanities, and sociologies
#7: Significant Language
Urdu is on the rundown of critical dialects assembled by the U.S. State Department. To address the issue in the United States for the Urdu speakers, the State Department, among different organizations and establishments, offers aggressive grants for dialect study and travel abroad for understudies mulling over Urdu.
#8: Derived of Hindui
Urdu is not viewed as sacred in itself in light of the fact that it is not Arabic, despite the fact that it is composed in the Persian nastaʿlīq script which, thus, is in view of the Arabic calligraphic style called naskh. For every one of these importations of Muslim vocabularies, it is an inferred of Hindui or Hindvi, the guardian of both advanced Hindi and Urdu
#9: Rekhtah
Amid the period when Urdu turned into the dialect of Islam in South Asia, it was called Rekhtah, Hindi and, just now and again, Urdu. The standard, talked adaptation (bazaar Urdu) was and still is practically comparative with prevalent, communicated in Hindi. In this way, altogether size, the talked dialect is a fundamental dialect of the world
#10: Middle East to Christ
Urdu is a key dialect in coming to Pakistan and numerous other Middle Eastern nations. Another intriguing reality about Urdu dialect is that the Pastors and adult professors who needs to take in God's Word inside and out will be excited to have the Pentecostal study notes, maps, and editorial which have made the FIRE Bible a vital apparatus in preparing initiative and building the assemblage of Christ in that a piece of the world. Hence having Fire Bibles in the Urdu dialect is a key in winning the Middle East to Chr
Monday, 11 May 2015
History of Urdu Poetry - Shayari
Urdu: اردو شاعری Urdu Shayari) is a rich custom of verse and has various sorts
and structures. Obtaining much from the Persian dialect, it is today a vital
piece of Pakistani and North Indian society.
Like different dialects, the historical backdrop of Urdu
verse offers causes and impacts with other etymological conventions inside the
Urdu-Hindi-Hindustani blend.
Artistic figures as far back as Kabir (1440–1518 CE) and
even Amir Khusro (1253-1325 CE) enlivened later Urdu artists, and served as
educated and phonetic sources.
Meer, Dard, Ghalib, Anis, Mustafa Meerza Urf Piyare Saheb
(Rasheed) Syed Sajjad Husain (Shadeed), Talib Khundmiri (Feb 14, 1938 – Jan 16
2011), Allama Dr. Syed Ali Imam Zaidi (Gauher) Lucknavi.
Syed Sibtey Husain Naqvi (Jauher), Dabeer, Iqbal, Zauq,
Josh, Jigar, Faiz, Firaq and Syed Shmad Shah (Ahmad Faraz) are among the best
artists of Urdu.
The convention is focused in the subcontinent. Taking after
the Partition of India in 1947, it discovered significant writers and
researchers dwelling fundamentally in cutting edge Pakistan. Mushairas (or
graceful pieces) are today held in metropolitan regions around the world.
_____________________________________________________________________________________________________
The Principal Forms Of Urdu Poetry & Shayari Are:
Ghazal, for the most part a short love verse, some of the
time a sonnet on a general subject. Entirely talking it ought to have the same
rhyme all through. Urdu ghazals generally are fake and customary.
Qasida, a sort of tribute, regularly laudatory on an
advocate, now and again a parody, here and there a ballad managing an essential
occasion. Generally speaking it is longer than ghazal, yet it takes after the
same arrangement of rhyme.
Marsiya (or epitaph), is about dependably on the demise of
Hasan and Husain and their families, however periodically on the passing of
relatives and companions. It is generally in six-lined stanzas with the rhyme
aaaabb. The recitation of these requiems in the initial ten days of Muharram is
one of the best occasion in Muslim life. A completely created marsiya is
dependably an epic. The well known marsia authors who acquired the convention
of Mir Anis among his progressive eras are Mir Nawab Ali 'Munis', Dulaha Sahab
'Uruj', Mustafa Meerza urf Piyare Sahab 'Rasheed', Syed Muhammad Mirza Uns, Ali
Nawab 'Qadeem', Syed Sajjad Hussain "Shadeed" Lucknavi, Allama,
Dr.Syed Ali Imam Zaidi, "Gauher" Luckhnavi the(great grandson of Mir
Babber Ali Anis).
Masnavi, in the lion's share of cases a wonderful sentiment.
It may stretch out to a few thousand lines, however by and large is much
shorter. A couple masnavis manage conventional residential and different
events. Mir and Sauda composed some of this kind. They are dependably in brave
couplets, and the normal meter is bacchic tetrameter with an iambus for last
foot. The Religious masnavi Histori of Islam (Tarikh-e-Islam Az Quran) composed
by Dr. Syed Ali Imam Zaidi Gauher Lucknavi.
Tazkira, historical compilation, quite often of verse alone.
This is frequently a minor gathering of names with a line or two of data about
every writer, trailed by example of his creation. Then again it might be the
historical backdrop of Urdu verse with bounteous illustrative concentrates. The
best tazkiras give personal points of interest, however fall flat in artistic
feedback, and we get little thought of style or poetical force, still less of
substance of lyrics. Indeed, even the huge treasurys don't deliberately survey
a creator's work. The majority of them have the names in sequential order
request, however maybe a couple favor recorded request. The lion's share cite
just verses, and the citations, ordinarily picked aimlessly, don't outline
verse.
Nazm Urdu nazm is a significant piece of Urdu verse. From Nazeer
Akarabadi, Iqbal, Josh, Firaq, Akhtarul Iman to down the line Noon Meem Rashid,
Faiz, Ali Sardar Jafri and Kaifi Azmi. They have secured regular life,
philosophical considering, national issues and the unstable predecament of
individual person.
_________________________________________________________________________________________
Gathering types of Urdu Poetry
The Principal Collection Forms Of Urdu Poetry Are:
Diwan, a gathering of sonnets, mostly gazals.
Kulliyat, truly a complete gathering of lyrics, however
regularly connected to any accumulation containing ballads of different sorts.
Hence, Akbar Allahabadi distributed three kulliyats.
Development Urdu verse frames itself with taking after
essential fixings:
Lure (بیت)
Lure ul-Ghazal (بیت الغزل)
Beher (بحر)
Diwan (دیوان)
Husn-E-Matla (حسنِ مطلع)
Kalam (کلام)
Kulyat (کلیات)
Maqta (مقطع)
Matla (مطلع)
Mavra (ماوراء)
Misra (مصرع)
Mushaira (مشاعرہ)
Qaafiyaa (قافیہ)
Radif (ردیف)
Sher (شعر)
Shayar (شاعر)
Shayari (شاعری)
Tah-Tul-Lafz (تحت اللفظ)
Takhallus (تخلص)
Tarannum (ترنم)
Triveni (تریوینی)
_____________________________________________________________________________________________________
Types
The real types of verse found in Urdu are:
Doha (دوہا)
Fard (فرد)
Geet (گیت)
Ghazal (غزل), as rehearsed by numerous writers in the Arab convention. Mir,
Ghalib, Dagh are no doubt understood authors of ghazal.
Hamd (حمد)
Hazal (ہزل)
Hijv (ہجو)
Kafi (کافی)
Madah (مدح)
Manqabat (منقبت)
Marsia (مرثیہ)
Masnavi (مثنوی)
Munajat (مناجات)
Musaddas (مسدس)
Mukhammas (مخمس)
Naat (نعت)
Nazm (نظم)
Noha (نوحہ)
Qasida (قصیدہ)
Qat'ã (قطعہ)
Qawwali (قوالی)
Rubai (رباعی) (a.k.a. Rubayyat or Rubaiyat) (رباعیات)
Salam (سلام)
Sehra (سہرا)
Shehr a'ashob (شہر آشوب)
Soz (سوز)
Wasokht (وسوخت)
Outside structures, for example, the poem, azad nazm or
(Free verse) and haiku have additionally been utilized by some cutting edge
Urdu artists.
________________________________________________________________________________
Takhallus (Pen Name)
Pseudonyms (Takhallus)In the Urdu lovely convention, most
artists utilize a nom de plume called the Takhallus (تخلص) . This can
be either a piece of an artist's given name or something else received as a
character. The customary tradition in recognizing Urdu writers is to say the
takhallus toward the end of the name. The word takhallus is gotten from Arabic,
signifying "completion". This is on account of in the ghazal structure,
the artist would generally fuse his or her pseudonym into the last couplet
(maqta) of every ballad.
________________________________________________________________________________
Script (In Writing)
Scripts utilized as a part of poetryIn Pakistan, Urdu verse
is composed in the standard Nasta'liq calligraphy style of the Perso-Arabic
script. In any case, in India, where Urdu verse is exceptionally prominent, the
Perso-Arabic is regularly discovered transliterated into the Devanāgarī script,
as a guide for those Hindī-speakers, who can appreciate Urdu, yet can't read
the Perso-Arabic script. With the beginning of the web and globalization, this
verse is regularly discovered written in Roman Urdu today.
Illustration:
The accompanying is a verse from a Urdu ghazal by Sher
Khwaja Mir Dard
Devanagari:
दोस्तों देखा तमाशा
यहाँ का बस,तुम रहो अब हम तो अपने घर
चले। Roman Urdu:
dosto dekhā tamāśhā yahāN kā bas.tum raho abdominal muscle
murmur to apne ghar chale English interpretation:
_____________________________________________________________________________________________________
Different:
Snare Bazi, an amusement utilizing Urdu verse
Maulvi Abdul Haq - father of Modern Urdu
Dr. Rafiq Hussain was the first researcher in unified India
to acquire a Ph.D in Urdu Poetry of Allama Iqbal in 1943.
Rundown of Urdu writers
Persian and Urdu
Dynamic Writers' Movement
Rekhta
Shayari
Urdu Inf... Vist this for more !!
Tuesday, 5 May 2015
Kashish - Afsana - Syed Sadaqat Hussain
موسم بہار کی ابتدا تھی اور میرے اندر کا موسم خزاں رسیدہ تھا ۔ جمیلہ سے طلاق نے میرے زہن کو منتشر کرکے رکھدیا تھا ۔ میں رخت سفر باندھ چکا تھا ۔ سکھر سے کراچی جانی والی طویل آرامدہ جاپانی ساختہ بس اپنے سفر کے آغاز کے لیئے تیار کھڑی تھی ۔ مجھے بس کی درمیانی حصہ میں نشست ملی تھی ۔
بس کے مسافر ایک ایک کرکے اپنی نشستوں پر بیٹھ رہے تھے ۔ نجانے کب وہ سیاہ گوگلز ارغوانی ساڑھی اور گلے میں کنٹھی پہنے ہاتھ میں پرس تھامے میرے انتہائی قریب سے گزری اور میرے پیچھے والی نشست پر بیٹھ گئی ۔ جسکا مجھے احساس تک نا ہوا ۔ اسی اثنا کھلی کھڑکی سے ایک خنک ہوا کا جھونکا میرے وجود سے ٹکرایا اور فضا میں تحلیل ہوگیا ۔ میری بیدم خواہشات میں زندگی کی حرارت پیدا ہوئی مجھے ایسے لگا جیسے میرے جسم سے ایک روح نکل کر دوسری سما رہی ہے ۔ نسوانی جسم سے پھوٹتی خوشبو نے میری نشست کے احاطے میں تلاطم برپا کردیا تھا ۔ اس کے سانسوں سے لپٹی معطر ہوا میری پشت سے آرپار ہوکر میرے وجود کے توازن کو بگاڑ رہی تھیں ۔ لمحہ بھر کے لیئے میری بے ثبات اور آشفتہ زندگی کو ایسا محسوس ہوا جیسے شب افروز کے بند روزن کھل گئے ہوں ۔
سفر کا آغاز ہوچکا تھا ۔ بس اونچے نیچے راستوں سے اب نسبتا ہموار جگہ پر تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی ۔۔۔
دو گھنٹے کا سفر طے ہوچکا تھا ۔ اسی اثنا میں کتاب ختم کی اور اسے اپنے چرمی بیگ میں رکھنے ہی والا تھا کہ میری پشت کے جانب سے ایک ہلکی سی نسوانی آواز نے مجھے اسکی جانب متوجہ کرلیا ۔۔۔
اگر آپ نے یہ کتاب پڑھ لی ہو تو کیا میں اس کتاب کا مطالعہ کرسکتی ہوں ۔ کیونکہ ابھی شہر آنے میں کچھ گھنٹے باقی ہیں اور میں بوریت محسوس کررہی ہوں ۔۔
میں نے بلاتکلف کتاب اس کی جانب بڑھائی تو اسکا چہرہ میری نظروں کے سامنے تھا ۔۔۔۔
وہ مجھ سے عمر میں لگ بھگ چھ آٹھ سال بڑی تھی ۔ مترنم آواز ، خوشنما لباس روشن آنکھیں اور چمکتی پیشانی اس کے وسیع علم اور مطالعہ کو ظاہر کررہی تھی۔
وہ میری پچھلی نشست پر براجمان تھی اور ہم باتوں کا تبادلہ باآسانی کرسکتے تھے ۔
اسکی شخصیت کا دلکش سحر میرے لیئے ایک انوکھا تجربہ تھا ۔۔ وہ وقفے وقفے سے کتاب کے مطالعہ کے ساتھ مجھ سے گفتگو جاری رکھے ہوئی تھی ۔
میرا قیام ملک سے باہر ہوتا ہے اور میں پاکستان اپنے بھائی کی شادی کے سلسلے میں آئی ہوں ۔ میرے استفسار پر وہ مجھ سے مخاطب تھی ۔۔۔
میرا تجسس اس کو جاننے کے لیئے مسلسل پیچ و تاب کھا رہا تھا اور میں چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے اپنی تمام باتیں شئیر کرے ۔۔۔۔
ہماری بس کے دونوں اطراف سرسبز فصلیں لہلہارہی تھیں اور منظر تیزی سے بدل رہے تھے ۔ آسمان پر خاکستری بادلوں کا راج تھا اور تیز ہوا نے موسم کو قدرے خوشگوار کردیا تھا ۔
موسم اور منظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میں نے اپنی آنکھیں قدرےموندھ لیں اور نیند کی کچھ جھپکیاں لینے لگا ۔
تھوڑی ہی دیر بعد اچانک بس ہچکولے کھانے لگی اور ایک زوردار جھٹکے کے ساتھ رک گئی ۔ میری آنکھ کھلی تو وہ میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی ۔
میری آنکھ کھلنے پر اس نے ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ میری جانب دیکھا اور کہا " آپ کے برابر والی نشست خالی تھی میں نے سوچا آپ سے باتیں بھی ہوتی رہیں گی اور کتاب بھی پڑھتی رہونگی ۔" مگر آپ تو سو ہی گئے ۔۔۔ وہ کھلکھلا کے ہنسی تو اس کے موتی جیسے دانت اس کے چہرے پر چمکتے ستارے معلوم دیئے ۔۔۔
اسکی کھلکھلاہٹ کے جواب میں، میں نے بھی ایک خوشگوار مسکراہٹ اپنی چہرے پر بکھیری اور اسے خوش آمدید کہا ۔۔۔
بس میں کچھ فنی خرابی ہوگئی تھی ۔ جسے کنڈکٹر کلینر اور ڈرائیور درست کرنے میں جتے ہوئے تھے ۔۔۔
" لیں دیکھیں اتنا وقت گزرگیا اور میں نے آپکا نام اور کام تک نہیں پوچھا" وہ ہلکی سی مسکرائی ۔۔۔ جی میرا نام احسن ہے اور آپ ؟؟؟ ۔۔۔ "میں افشاں ہوں" ۔۔۔۔
بہت اچھے افسانوں کی کتاب ہے ۔ اس نے ایک اگلا صفحہ پلٹتے ہوئے مجھ سے کہا ۔
مجھے شاعری اور افسانے بہت پسند ہیں ۔ یہ سنکر میں بہت خوش ہوا اور سوچا کہ خاتون علمی اور ادبی شخصیت ہیں اور میرے مزاج سے مطابقت رکھتی ہیں ۔
ہماری گفتگو جاری رہی جس میں بے شمارنئے انکشافات میرے لیئے حیرت کے باعث تھے ۔ اسکی نجی زندگی مختلف طوفانوں کا سامنہ کرچکی تھی اسکے باوجود وہ اپنی باتوں سے بلند استقامت دکھائی دیتی تھی ۔
جوں جوں ہماری گفتگو آگے بڑھتی جارہی تھی توں توں اسکے چہرے کی کیفیات اور رنگ بدلتے دکھائی دے رہے تھے ۔ اس کے موضوعات سماجی ناانصافیوں بے قدریوں اور گھٹن کو اپنا محور بنارہے تھے ۔ اور میں اسکے بدلتے موضوعات اور ہیجان کو محسوس کررہا تھا ۔
ایک بار پھر گفتگو نے ایک طویل وقفہ لیا اور اس اثنا میری پھر آنکھ لگ گئی ۔
" تم مجھے اسطرح روز روز زدوکوب کرکے میری تزلیل نہیں کرسکتے ۔ مجھ میں کیا کمی تھی جو تم نے دوسری شادی کرلی اور مجھے چھوڑ دیا ۔ نہیں چاہیئے مجھے تمھاری جائیداد ۔ اسکی بڑبڑاھٹ سے میری آنکھ کھل گئی ۔ وہ یہ سب لاشعوری طور پر کہ گئی ۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی میں نے اس کی صورت کو غور سے دیکھا تو کرب و یاس کی تمام علامتیں اسکے چہرے پر عیاں تھیں ۔ مجھے فضا کا اجلا پن معدوم ہوتا دکھائی دیا ۔ روشنی تھی مگر دھندلی ۔ کہر کی ایک پتلی سی تہہ ہر شے پر چڑھی دکھائی دی ۔ جس سے فضا میں گدلہ پن پیدا ہوگیا تھا ۔ یہ گدلہ پن اس لحاظ سے بہتر لگا کہ بظاہر درست نظر آنے والی چیزوں کی شبہہ اور انکی نوک پلک کچھ مدھم دکھائی دینے لگی تھیں ۔
بس اب شہر کے مضافات میں داخل ہوچکی تھی اور تیزی سے بل کھاتی ہوئی ایک فلائی اوور عبور کررہی تھی ۔ قطار در قطار روشن بجلی کے قمقمے تیزی سے پیچھےچلے جارہے تھے جیسے زندگی تیزی سی اپنے اختتام کو بڑھ رہی ہو ۔
افشاں نے محسوس کرلیا تھا کہ میں اسکے اندرون مدوجزر کو جان چکا ہوں ۔ اسے اپنی زندگی منجمد سی محسوس ہوئی ۔ اس نے کچھ سسکیاں لیں اور اپنا سر میرے کندھے سے ٹکادیا ۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی ۔ خاکستری بادلوں کا رنگ گہرا سیاہ ہوچکا تھا ۔ پانی کے ننھے ننھے قطرے بس کے شیشوں پر پھسلتے ہوئے نیچے گر رہے تھے ۔ اور میرا وجود اسکے وجود کی حرارت سے ایک دلنواز کیفیت سے دوچار تھا ۔ میں محسوس کرسکتا تھا کہ وہ میرے وجود سے ٹکی بہت پرسکون دکھائیدے رہی تھی ۔
شہر کی سڑکوں کے دونوں اطراف گل داودی اور سورج مکھی کے تازہ پھول بارش کے قطروں سے نہارہے تھے ۔ اور فضا میں پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوچکا تھا ہوا میں خنکی بڑھتے ہی اس نے بیگ میں سے شال نکالی اور اسے اپنے جسم سے لپیٹ لیا ۔
کچھ لمحوں بعد اسے نیند سی محسوس ہوئی ۔ اس نے ایک بار پھر اپنا سر میرے کندھے سے ٹکایا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ گہری نیند میں تھی ۔
بس کی رفتار قدرے دھیمی ہوچکی تھی ۔ آفتاب مکمل غروب ہوچکا تھا روشنیوں سے پورا شہر منور تھا ۔ بس کا انجن بند ہوا تو وہ ہڑبڑا کے اٹھ گئی ۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اسکی خوبصورت آنکھوں میں آبگینے لہرارہے تھے اسی اثنا ہم دونوں نے ایکدوسرے کے ہاتھ تھامے ایک ساتھ بس سے نیچے اترے ۔ ٹیکسی میں سوار ہوئے اور ایک گھر کی جانب بڑھ گئے ۔
Sunday, 3 May 2015
Baap Ki Dulhan - باپ کی دلہن | Sara Khan
باپ کی دلہن
کالی اندهیری رات،تیز ہوا سے پیدا ہونے والا شور اور ساته ہی کهڑکی کی کهٹ کهٹ...صبا نے جلدی سے اٹه کر کهڑکی بند کی..بچوں کو ابهی تو سلایا ہے.اٹه گئے تو اس خوفناک آندهی سے ڈر جائیں گے.وہ بربڑائی.خود بهی وہ بچپن سے ہی گرجتے بادل اور بجلی کی چمک سے خوفزدہ ہو جاتی تهی..کهڑکی کے آگے پردہ کر کے وہ بستر پہ ہی بچوں کے پاس بیٹه گئی.نیند آنکهوں سے کوسوں دور تهی.اس نے کمر کےپیچهے تکیہ رکها.اور ساته رکهی میز کی دراز سے اپنی وہ ڈائری نکالی جس میں اس کی بچپن سے لے کر اب تک کی تمام یادیں قید تهیں.چند لمحے ڈائری کو بغور دیکهنے کے بعد اس نے دهیرے سے اسے کهولا تو وہی صفحہ کهلا.جہاں سے اس کی زندگی کے نشیب و فراز کا آغاز ہوا تها.جب اس کے باپ نے ماں کو طلاق دے کر چاروں بچوں کو اپنے پاس رکه لیا اور مہینہ بعد ہی دوسری شادی کر لی ...وہ پڑهنے لگی.لکها تها.. ہم اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتے تهے مگر ابا کے غصے سے ڈر کر سہم جاتےاور اپنی سسکیوں کو دبانے کی کوشش کرتے تهے..ابا کے الفاظ اج بهی کانوں کے پردے پهاڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں. 'خبردار جو تم سب نے ماں کے لئے آنسو بہائے..مر گئی وہ تمهارے لئے...بس اب یہ نئی ماں ہی تمهاری ماں ہے..' سب سے چهوٹا بهائی ڈر کے مجه سے لپٹ جاتا اور باقی دونوں بهی میرے دوپٹہ کا کونا منہ میں ڈال کر میرے پیچهے چهپنے کی کوشش کرتے تهے.میری عمر اس وقت تقریبا چودہ سال تهی.بڑی بہن ہونے کی وجہ سے چهوٹوں کے سامنے آنسووں کو پلکوں سے قید کرنے کی ناکام کوشش کرتی.اور بار بار واش روم جا کر آنسووں کو آزاد چهوڑ دیتی. دل کا بوجه ہلکا کر کے منہ دهو کے پهر گهر کے کاموں میں لگ جاتی.نئی ماں چهوٹی چهوٹی باتوں پر کبهی کان مروڑ دیتی کبهی بازو. زیادہ غصہ آتا تو تختی مار مار کے توڑ دیتی.... امی نانا ابو کے گهر رہنے لگی تهیں. نانا ابو کا گهر بازار جاتے ہوئے راستے میں آتا تها.ایک دن میں اور چهوٹا بهائی نئی ماں کے ساته بازار جا رہے تهے.کہ نانا ابو کے گهر کے قریب پہنچ کر ہماری نظریں ان کی کهڑکی پہ جم کررہ گیئں وہاں امی سر پہ دوپٹہ لئے اداس کهڑی تهیں.ہمارے قدم وہیں روک گئے.میرے آنسو بے اختیار بہنے لگے.بهائی کی تو ہچکی ہی بنده گئی.امی کی بے چینی بهی اس چڑیا کی ماند تهی جس کے گهونسلے پر کسی کوے نے اچانک قبضہ کر لیا ہو.وہ ہاته کے اشارے سے شائد ہمیں حوصلہ دے رہی تهیں اور بار بار آنکهوں پہ بهی ہاته پهرتی جاتیں تهیں..نئی ماں نے پیچهے مڑ کے دیکها اور فورا حالات بهانپ کر ہمیں وہاں سے گهسیٹتے ہوئے لے جانے لگیں.ہمارے قدم آگے اور نظریں پیچهے امی پر تهیں. نئی ماں کے ہاته کی گرفت اور ناخنوں کی چبهن سے امی سے لپٹنے کی خواہش اور بڑه رہی تهی. میں نے اپنی سسکیوں کو دبانے کے لئے منہ پہ ہاته رکه لیا مگر چهوٹا بهائی بلک بلک کر روتا رہا مگر اس کی چیخیں ٹریفک کے شور اور سبزی فروشوں کی آوازوں میں دب کر گم ہو گیئں.... ڈائری کا ایک ورق ختم ہو چکا تها.صبا نے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکهیں موند لیں اور دو موٹے موٹے آنسو اس کی گالوں سے پهسل گئے. اس نے ایک گہری سانس لی اور پهر ڈائری کے دو تین ورق آگے پلٹ کے پڑهنے لگی..لکها تها.آج امی کی جدائی میں سب سے چهوٹے بهائی کو فوت ہوئے چار مہینے گزر گئے ہیں...لکهنا بہت مشکل ہو رہا ہے.مگر مجهے کوئی سننے والا نہیں اگر ڈائری نہ لکهوں تو شائد میں بهی مر جاوں..خیر بهائی کی وفات کے بعد ابا کا دل بهی کچه نرم ہو گیا.اور امی کی سر توڑ کوششوں سے ابا نے دوسرابهائی اور بہن کوامی کے حوالے کر دیا.مگر مجهے گهر کے کاموں کے لئے رکه لیا..نئی ماں کے جوڑوں میں بہت درد رہتا تها.وہ کوئی کام نہ کرتیں.بس مجه پہ حکم چلاتیں.اور مارتی .میں چهپ چهپ کے روتی رہتی پر اس بات سے مطمین ہو جاتی کہ باقی دونوں بهائی بہن کو امی کی گود نصیب ہو گئی ہے..وقت گزرتا گیا .ایک دن ابا شدید بیمار رہنے کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے.لفظ دهندلانے لگے تو صبا نے دوپٹے کے پلو سے آنکهیں صاف کیں.ایک نظر بچوں کی طرف دیکها.اور ساته میز پر رکهے گلاس سے پانی کا گهونٹ بهر کے چند اور صفحے پلٹ کے پڑهنے لگی...ابا کے مرنے کے بعد نئی ماں مجهے امی سے دور کسی اور شہر میں لے آیئں.اتنی مہربانی کی کہ ساته والےگهر کی ایک استانی کے پاس پڑهنے بیٹها دیتں.باہر کے کاموںاور کچه نئی اورذمہ داریوں سے گهبرا کرتهوڑے ہی عرصے بعد نئی ماں نے اپنے سے کم عمر شخص سے شادی کر لی..مجهے بہت عجیب لگا پہلے نئی ماں تهی اب نیا باپ.... میری زندگی میں اپنا کوئی رشتہ نہیں تها.میں اپنی اندرونی ہنجانی کیفیت کو چیخیں مار مار کے باہر لانا چاہتی تهی.مگر ہمیشہ کی طرح خاموشی کے حصار میں آنسووں کے ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں تها..نئے ابا کا کاروبار اچها تها.کسی چیز کی کمی نہ تهی.چیزیں بهی نئی نئی آ رہی تهیں. وقت گزرتا گیا.ایک دن نئی ماں کے کمرے سے خلاف معمول بلند آوازوں کے شور سے مجهے تجسس ہوا.تو میں نے کان لگا کر سنا.ماں کہہ رہی تهی 'اس عمر میں بچے ہونا ممکن نہیں...تم خود سمجهدار ہو...ہاں ہاں جانتا ہوں.مگر میں اپنے آنگن میں اپنے بچوں کو کهیلتا کودتا دیکهنا چاہتا ہوں.....میرا دل اپنے بچوں کی آواز سننے کو ترستا ہے.ابا کے آخری جملے پر آواز میں کپکپاہٹ اور درد تها...قدموں کی آواز سن کر میں بهاگ کر اپنے کوٹهری نما کمرے میں آگئی..اسکے بعد میں ہر روز نئی ماں کو پریشان ہی دیکهتی.نئے ابا بهی چپ چپ اور افسردہ سے رہنے لگے تهے..میں ربوٹ کی طرح سر پہ دوپٹہ لئے کام کرتی رہتی. ایک دن میں شام کی چائے لے کر اپنے نئے والدین کے کمرے میں گئی.دونوں میری طرف یوں متوجہ ہوئے.جیسے پہلی بار دیکه رہے ہوں.ان کی گہری نظروں کے خوف سے میری کنپٹیوں پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے.ماں کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ دیکه کر میں چائے رکهتے ہی تیزی سے باہر آ گئی.اور خیر کی دعائیں مانگنے لگئی.رات کو نئی ماں کمرے میں آئیں اور خلاف توقع شفقت سے سر پہ ہاته رکها..مجهے کسی طوفان کے آنے کا احساس ہونے لگا. کیا تم اپنی ماں اور بہن بهائی سے ملنا چاہتی ہو؟ میری آنکهوں کی پتلیاں پهیل گئیں.خوشی کے جذبات سے الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہو کر حلق میں ہی پهنس گئے اور میں ہاں کے انداز میں دو تین بار سر ہلا کر بے چینی سےنئی ماں کے اگلے جملے کا انتظار کرنے لگی..وہ چارپائی پہ بیٹهتے ہوئے بولیں...میں تمهیں اگلے ہفتے تمهاری امی کے پاس بهیج دونگی..پر میری ایک شرط ہے.انهوں نے مجهے بهی ہاته سے پکر کے پاس بیٹها لیا..جلدی بتائیے کیا شرط ہے؟میں نے ان کے ہاته پر اپنا ہاته رکهتے ہوئے پوچها...دیکهو صبا تمهاری شادی کی عمر ہو گئی ہے.اور میں نہیں چاہتی تمهارا ہاته کسی ایرے غیرے کے ہاته میں دوں..میں چاہتی ہوں تم اسی گهر میں رہو..وہ میری پهٹی ہوئی نظروں کو نظر انداز کر کے بولتی گیئں..اس لئے تمهارا نکاح میں نے طے کر دیا ہے...پرسوں تمهارا نکاح......خالد کے ساته ہے.ایک نظر میرے چہرے کا جائزہ لینے کے بعد بولیں..خالد یعنی ..میرے میاں کے ساته ہے...تمهارا گهر بهی بس جائے گا اور اس کی بچوں کی تمنا بهی پوری ہو جائے گی....میرا جسم اندر سے کانپ رہا تها. صبح تمهارا جوڑا لے آونگی. پرسوں تیار ہو جانا...اور دیکهو..وہ جاتے ہوئے مڑیں. میں نے سوچوں کے گرداب سے نکل کر ان کی طرف دیکها..بولیں..مجهے کوئی ڈرامہ دکهانے کی ضرورت نہیں.پرسوں..یاد رکهنا....
صبا نے ایک گہری سانس لے کر ڈائری بند کر دی.واپس دراز میں رکه کر آنسو صاف کئے..باہر طوفان بهی تهم چکا تها..اس نے اپنے نئے باپ سے ہونے والے دونوں بچوں کا ماتها چوما اور ان پہ ہاته رکه کر ساته ہی سو گئی...
سارہ خان.
کالی اندهیری رات،تیز ہوا سے پیدا ہونے والا شور اور ساته ہی کهڑکی کی کهٹ کهٹ...صبا نے جلدی سے اٹه کر کهڑکی بند کی..بچوں کو ابهی تو سلایا ہے.اٹه گئے تو اس خوفناک آندهی سے ڈر جائیں گے.وہ بربڑائی.خود بهی وہ بچپن سے ہی گرجتے بادل اور بجلی کی چمک سے خوفزدہ ہو جاتی تهی..کهڑکی کے آگے پردہ کر کے وہ بستر پہ ہی بچوں کے پاس بیٹه گئی.نیند آنکهوں سے کوسوں دور تهی.اس نے کمر کےپیچهے تکیہ رکها.اور ساته رکهی میز کی دراز سے اپنی وہ ڈائری نکالی جس میں اس کی بچپن سے لے کر اب تک کی تمام یادیں قید تهیں.چند لمحے ڈائری کو بغور دیکهنے کے بعد اس نے دهیرے سے اسے کهولا تو وہی صفحہ کهلا.جہاں سے اس کی زندگی کے نشیب و فراز کا آغاز ہوا تها.جب اس کے باپ نے ماں کو طلاق دے کر چاروں بچوں کو اپنے پاس رکه لیا اور مہینہ بعد ہی دوسری شادی کر لی ...وہ پڑهنے لگی.لکها تها.. ہم اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتے تهے مگر ابا کے غصے سے ڈر کر سہم جاتےاور اپنی سسکیوں کو دبانے کی کوشش کرتے تهے..ابا کے الفاظ اج بهی کانوں کے پردے پهاڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں. 'خبردار جو تم سب نے ماں کے لئے آنسو بہائے..مر گئی وہ تمهارے لئے...بس اب یہ نئی ماں ہی تمهاری ماں ہے..' سب سے چهوٹا بهائی ڈر کے مجه سے لپٹ جاتا اور باقی دونوں بهی میرے دوپٹہ کا کونا منہ میں ڈال کر میرے پیچهے چهپنے کی کوشش کرتے تهے.میری عمر اس وقت تقریبا چودہ سال تهی.بڑی بہن ہونے کی وجہ سے چهوٹوں کے سامنے آنسووں کو پلکوں سے قید کرنے کی ناکام کوشش کرتی.اور بار بار واش روم جا کر آنسووں کو آزاد چهوڑ دیتی. دل کا بوجه ہلکا کر کے منہ دهو کے پهر گهر کے کاموں میں لگ جاتی.نئی ماں چهوٹی چهوٹی باتوں پر کبهی کان مروڑ دیتی کبهی بازو. زیادہ غصہ آتا تو تختی مار مار کے توڑ دیتی.... امی نانا ابو کے گهر رہنے لگی تهیں. نانا ابو کا گهر بازار جاتے ہوئے راستے میں آتا تها.ایک دن میں اور چهوٹا بهائی نئی ماں کے ساته بازار جا رہے تهے.کہ نانا ابو کے گهر کے قریب پہنچ کر ہماری نظریں ان کی کهڑکی پہ جم کررہ گیئں وہاں امی سر پہ دوپٹہ لئے اداس کهڑی تهیں.ہمارے قدم وہیں روک گئے.میرے آنسو بے اختیار بہنے لگے.بهائی کی تو ہچکی ہی بنده گئی.امی کی بے چینی بهی اس چڑیا کی ماند تهی جس کے گهونسلے پر کسی کوے نے اچانک قبضہ کر لیا ہو.وہ ہاته کے اشارے سے شائد ہمیں حوصلہ دے رہی تهیں اور بار بار آنکهوں پہ بهی ہاته پهرتی جاتیں تهیں..نئی ماں نے پیچهے مڑ کے دیکها اور فورا حالات بهانپ کر ہمیں وہاں سے گهسیٹتے ہوئے لے جانے لگیں.ہمارے قدم آگے اور نظریں پیچهے امی پر تهیں. نئی ماں کے ہاته کی گرفت اور ناخنوں کی چبهن سے امی سے لپٹنے کی خواہش اور بڑه رہی تهی. میں نے اپنی سسکیوں کو دبانے کے لئے منہ پہ ہاته رکه لیا مگر چهوٹا بهائی بلک بلک کر روتا رہا مگر اس کی چیخیں ٹریفک کے شور اور سبزی فروشوں کی آوازوں میں دب کر گم ہو گیئں.... ڈائری کا ایک ورق ختم ہو چکا تها.صبا نے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکهیں موند لیں اور دو موٹے موٹے آنسو اس کی گالوں سے پهسل گئے. اس نے ایک گہری سانس لی اور پهر ڈائری کے دو تین ورق آگے پلٹ کے پڑهنے لگی..لکها تها.آج امی کی جدائی میں سب سے چهوٹے بهائی کو فوت ہوئے چار مہینے گزر گئے ہیں...لکهنا بہت مشکل ہو رہا ہے.مگر مجهے کوئی سننے والا نہیں اگر ڈائری نہ لکهوں تو شائد میں بهی مر جاوں..خیر بهائی کی وفات کے بعد ابا کا دل بهی کچه نرم ہو گیا.اور امی کی سر توڑ کوششوں سے ابا نے دوسرابهائی اور بہن کوامی کے حوالے کر دیا.مگر مجهے گهر کے کاموں کے لئے رکه لیا..نئی ماں کے جوڑوں میں بہت درد رہتا تها.وہ کوئی کام نہ کرتیں.بس مجه پہ حکم چلاتیں.اور مارتی .میں چهپ چهپ کے روتی رہتی پر اس بات سے مطمین ہو جاتی کہ باقی دونوں بهائی بہن کو امی کی گود نصیب ہو گئی ہے..وقت گزرتا گیا .ایک دن ابا شدید بیمار رہنے کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے.لفظ دهندلانے لگے تو صبا نے دوپٹے کے پلو سے آنکهیں صاف کیں.ایک نظر بچوں کی طرف دیکها.اور ساته میز پر رکهے گلاس سے پانی کا گهونٹ بهر کے چند اور صفحے پلٹ کے پڑهنے لگی...ابا کے مرنے کے بعد نئی ماں مجهے امی سے دور کسی اور شہر میں لے آیئں.اتنی مہربانی کی کہ ساته والےگهر کی ایک استانی کے پاس پڑهنے بیٹها دیتں.باہر کے کاموںاور کچه نئی اورذمہ داریوں سے گهبرا کرتهوڑے ہی عرصے بعد نئی ماں نے اپنے سے کم عمر شخص سے شادی کر لی..مجهے بہت عجیب لگا پہلے نئی ماں تهی اب نیا باپ.... میری زندگی میں اپنا کوئی رشتہ نہیں تها.میں اپنی اندرونی ہنجانی کیفیت کو چیخیں مار مار کے باہر لانا چاہتی تهی.مگر ہمیشہ کی طرح خاموشی کے حصار میں آنسووں کے ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں تها..نئے ابا کا کاروبار اچها تها.کسی چیز کی کمی نہ تهی.چیزیں بهی نئی نئی آ رہی تهیں. وقت گزرتا گیا.ایک دن نئی ماں کے کمرے سے خلاف معمول بلند آوازوں کے شور سے مجهے تجسس ہوا.تو میں نے کان لگا کر سنا.ماں کہہ رہی تهی 'اس عمر میں بچے ہونا ممکن نہیں...تم خود سمجهدار ہو...ہاں ہاں جانتا ہوں.مگر میں اپنے آنگن میں اپنے بچوں کو کهیلتا کودتا دیکهنا چاہتا ہوں.....میرا دل اپنے بچوں کی آواز سننے کو ترستا ہے.ابا کے آخری جملے پر آواز میں کپکپاہٹ اور درد تها...قدموں کی آواز سن کر میں بهاگ کر اپنے کوٹهری نما کمرے میں آگئی..اسکے بعد میں ہر روز نئی ماں کو پریشان ہی دیکهتی.نئے ابا بهی چپ چپ اور افسردہ سے رہنے لگے تهے..میں ربوٹ کی طرح سر پہ دوپٹہ لئے کام کرتی رہتی. ایک دن میں شام کی چائے لے کر اپنے نئے والدین کے کمرے میں گئی.دونوں میری طرف یوں متوجہ ہوئے.جیسے پہلی بار دیکه رہے ہوں.ان کی گہری نظروں کے خوف سے میری کنپٹیوں پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے.ماں کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ دیکه کر میں چائے رکهتے ہی تیزی سے باہر آ گئی.اور خیر کی دعائیں مانگنے لگئی.رات کو نئی ماں کمرے میں آئیں اور خلاف توقع شفقت سے سر پہ ہاته رکها..مجهے کسی طوفان کے آنے کا احساس ہونے لگا. کیا تم اپنی ماں اور بہن بهائی سے ملنا چاہتی ہو؟ میری آنکهوں کی پتلیاں پهیل گئیں.خوشی کے جذبات سے الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہو کر حلق میں ہی پهنس گئے اور میں ہاں کے انداز میں دو تین بار سر ہلا کر بے چینی سےنئی ماں کے اگلے جملے کا انتظار کرنے لگی..وہ چارپائی پہ بیٹهتے ہوئے بولیں...میں تمهیں اگلے ہفتے تمهاری امی کے پاس بهیج دونگی..پر میری ایک شرط ہے.انهوں نے مجهے بهی ہاته سے پکر کے پاس بیٹها لیا..جلدی بتائیے کیا شرط ہے؟میں نے ان کے ہاته پر اپنا ہاته رکهتے ہوئے پوچها...دیکهو صبا تمهاری شادی کی عمر ہو گئی ہے.اور میں نہیں چاہتی تمهارا ہاته کسی ایرے غیرے کے ہاته میں دوں..میں چاہتی ہوں تم اسی گهر میں رہو..وہ میری پهٹی ہوئی نظروں کو نظر انداز کر کے بولتی گیئں..اس لئے تمهارا نکاح میں نے طے کر دیا ہے...پرسوں تمهارا نکاح......خالد کے ساته ہے.ایک نظر میرے چہرے کا جائزہ لینے کے بعد بولیں..خالد یعنی ..میرے میاں کے ساته ہے...تمهارا گهر بهی بس جائے گا اور اس کی بچوں کی تمنا بهی پوری ہو جائے گی....میرا جسم اندر سے کانپ رہا تها. صبح تمهارا جوڑا لے آونگی. پرسوں تیار ہو جانا...اور دیکهو..وہ جاتے ہوئے مڑیں. میں نے سوچوں کے گرداب سے نکل کر ان کی طرف دیکها..بولیں..مجهے کوئی ڈرامہ دکهانے کی ضرورت نہیں.پرسوں..یاد رکهنا....
صبا نے ایک گہری سانس لے کر ڈائری بند کر دی.واپس دراز میں رکه کر آنسو صاف کئے..باہر طوفان بهی تهم چکا تها..اس نے اپنے نئے باپ سے ہونے والے دونوں بچوں کا ماتها چوما اور ان پہ ہاته رکه کر ساته ہی سو گئی...
سارہ خان.
Allah Sab Jaanta Hai - اللہ سب جانتا ہے
اللہ سب جانتا ہے
سوتے جاگتے کی کیفیت تھی لیکن ایک بات کا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میں مر چکا تھا۔ نہ صرف مر چکا تھا بلکہ مجھے خدا کے حضور پیش کرنے والے فرشتے میرے دونوں بازو پکڑے کشاں کشاں مجھے خدا کے سامنے پیش کرنے لئے چلے جا رہے تھے۔خواب کا یہ حصہ اتنا واضح نہیں تھا کہ میں اس کی تفاصیل بیان کر سکوں۔ایک جگہ فرشتے رکے۔وہ وہاں کے آداب جانتے تھے تو سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔میں ہونقوں کی طرح کھڑا رہا۔بس مجھے ایسا لگا میرے چاروں طرف ایک ٹھنڈی اور سکون بخش روشنی پھیلی ہوئی تھی۔مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا تو میں نے اپنی دائیں جانب کھڑے فرشتے سے کہا۔
’’یہاں مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہاہے۔اللہ میاں کہاں ہیں؟‘‘۔
فرشتے نے مجھے گھورا اور سرگوشی میں بولا۔
’’احمق کہیں کے۔دنیا سے آرہا ہے اور پوچھتا ہے کہ اللہ میاں کہاں ہیں؟اللہ میاں تو ہر چیز میں ہیں مگر تونے کبھی دیدہ بینا ہی پیدا نہیں کیا۔خود کو ہی دیکھتا رہا‘‘۔
شاید مرنے کے بعد انسان کی حسیات کچھ زیادہ ہی کام کرتی ہیں۔میں لمحہ بھر میں بہت کچھ سوچ گیا۔یہ فرشتہ بالکل ٹھیک بات کر رہا تھا۔میں نے سوچا تو مجھ پر کھلا کہ میں نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا تھا کہ اللہ میاں کہاں کہاں نہیں تھے؟مگر اب شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔میں اللہ میاں کے سامنے کھڑا تھا۔روشنی کے منبع سے نرم اور شفیق آواز پھر اُبھری۔
’’اس کا نامہ اعمال پیش کیا جائے‘‘۔
مجھے علم نہیں تھا کہ ہمارے علاوہ وہاں دو اور فرشتے بھی موجود تھے۔دونوں آگے بڑھے۔اُن کے ہاتھوں میں کاغذوں کا ایک ضخیم پلندہ تھا۔اُنہوں نے اُسے پڑھنا شروع کیا۔میں حیران رہ گیا۔وہ میری وہ وہ اچھائیاں اور برائیاں گنوا رہے تھے جن میں سے چند ہی مجھے یاد تھیں۔وہ گناہ جنہیں میں چھوٹا سمجھ رہا تھا اور وہ نیکیاں بھی جنہیں کرکے میں بھول چکا تھا۔فرشتوں نے یہاں تک لکھ رکھا تھا کہ میں نے ایک مرتبہ ایک ٹوٹی ٹانگ والے کتے کو رستے سے ہٹا کر سڑک کے کنارے ڈال دیا تھا کہ کوئی گاڑی اُسے کچل نہ دے۔اسی طرح ایک مرتبہ میں نے اپنی اماں کے دوپٹے کی گرہ سے ایک روپیہ بارہ آنے چوری کرکے فلم دیکھی تھی۔میرے ہر ہر پل کا حساب تھا اُن فرشتوں کے پاس۔فرشتے میرے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کرتے رہے۔پھر وہ اپنا لکھا ختم کرکے اُسی گوشے میں واپس چلے گئے جہاں وہ پہلے کھڑے تھے۔نور کے پردے کے پار خاموشی تھی لیکن یہ خاموشی مجھے بے قرار نہیں کر رہی تھی۔میں اپنے بارے میں فیصلہ سننے کا منتظر تھا۔پھروہی نرم، من موہنی، میٹھی آواز سنائی دی۔
’’میں قادر مطلق ہوں۔صمیم و بصیر ہوں۔تم سب سے زیادہ جانتا ہوں۔تم سے ایک چُوک ہو گئی ہے۔اس شخص کے بارے میں تم نے ایک انتہائی ضروری بات نہیں لکھی۔کیوں نہیں لکھی؟‘‘۔
میں نے گردن گھما کر کراماً کاتبین کو دیکھا۔وہ گھبرائے ہوئے اور پریشان دکھائی دے رہے تھے۔پھر دونوں آگے بڑھے، سجدے میں گئے اور ان میں سے ایک نے کھڑے ہو کر کہا۔
‘‘بے شک ہمارے مالک۔ایک سہو ضرور ہوا۔ہمیں معاف کر دے۔اور وہ سہو یہ تھا کہ اس شخص نے اپنے محلے میں بننے والی ایک مسجد کی تعمیر کی مخالفت کی تھی۔کہتا تھا مسجدیں قدم قدم پر ہیں۔یہاں ہسپتال بننا چاہئے۔سکول بننا چاہئے۔عورتوں کے لئے روزگار کا کوئی ذریعہ بننا چاہئے۔یہی بات تھی میرے مالک۔بلاشبہ ہم اس کا انجام جانتے ہیں۔جو شخص خدا کے گھر کا مخالف ہو، اُس کی جگہ جہنم کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتی‘‘۔
نور سے اُبھرنے والی آواز میں اب بھی نرمی تھی۔
’’میں قادر مطلق ہوں۔یہ فیصلہ مجھے کرنا ہے۔بلا شبہ مسجد میرا گھر ہے۔میں وہاں رہتا ہوں لیکن میں نے آدم کی تخلیق محض قدم قدم پر مسجدیں بنانے کے لئے نہیں کی تھی۔میں نے آدم کو درد دل کے واسطے پیدا کیا تھا۔ایک دوسرے کی غم گساری کا درس دے کر دنیا میں بھیجا تھا۔میں تم سے مشورہ نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کروں کیونکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں۔سب اللہ کے محتاج ہیں۔بادی النظر میں یہ گناہ ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن میں اس کے دل میں جھانک سکتا ہوں۔یہ ہمارا اور ہمارے نام پر بننے والی مسجدوں کا مخالف نہیں تھا۔یہ تنگ نظر انسانوں کا خیال ہو سکتا ہے۔ہمارا نہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے بعض اوقات ہماری حدوں سے تجاوز کیا۔اس کے نامہ اعمال میں ایسی سیاہی جا بجا بکھری دکھائی دیتی ہے۔ہم چاہیں تو اسے اسی وقت جہنم میں پھنکوا سکتے ہیں، لیکن ہم ایسا کریں گے نہیں کیونکہ یہ ہمارے بھیجے ہوئے مذہب میں پھندنے ٹانکنے والوں میں سے نہیں تھا۔مذہب کے نام پر وہ دھول اُڑانے والوں میں سے نہیں تھا جس نے ہمارا چہرہ ہی ہمارے ماننے والوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا ہے۔اس کے گناہوں کو نظر میں رکھیں تو اس کی جگہ جہنم ہی بنتی ہے لیکن لے جاؤ کمبخت کو اور جنت میں کوئی ایسا چھوٹا سا گھر الاٹ کردو جس میں ایک آدھ حور ہو اور اسے شراب کی کوئی تکلیف نہ ہو۔
میں اللہ میاں کو مہربان پا کر حوصلہ مند ہوا اور میں نے کہا۔
’’اللہ میاں۔سنا ہے حوریں یہاں لاکھوں برس سے رہتی ہیں اور یہاں کی شراب میں نشہ بھی نہیں ہوتا۔ایسی حور اور ایسی شراب لے کے میں کیا کروں گا کہ کسی اُستاد نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ جو مجھ کو پلانی ہے تو دنیا سے منگا دے!‘‘۔
اس بار جو آواز آئی تو اُس میں چھپی مسکراہٹ میں نے صاف محسوس کی۔اللہ میاں نے کہا۔
’’اسی لئے ہم نے کہا ہے انسان بہت جلد باز اور خسارے میں رہنے والا ہے۔ہماری مصلحتوں کو نہیں سمجھتا اور اپنی طرف سے ہمارے کارخانے میں مِین میخ نکالتا رہتا ہے۔بد بخت ایک دفعہ اُس گھر میں جا تو سہی!‘‘۔
میری آنکھ کھلی تو میرا جسم پسینے سے تر تھا اور دُور کہیں سے فجر کی اذان سنائی دے رہی تھی۔
سوتے جاگتے کی کیفیت تھی لیکن ایک بات کا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میں مر چکا تھا۔ نہ صرف مر چکا تھا بلکہ مجھے خدا کے حضور پیش کرنے والے فرشتے میرے دونوں بازو پکڑے کشاں کشاں مجھے خدا کے سامنے پیش کرنے لئے چلے جا رہے تھے۔خواب کا یہ حصہ اتنا واضح نہیں تھا کہ میں اس کی تفاصیل بیان کر سکوں۔ایک جگہ فرشتے رکے۔وہ وہاں کے آداب جانتے تھے تو سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔میں ہونقوں کی طرح کھڑا رہا۔بس مجھے ایسا لگا میرے چاروں طرف ایک ٹھنڈی اور سکون بخش روشنی پھیلی ہوئی تھی۔مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا تو میں نے اپنی دائیں جانب کھڑے فرشتے سے کہا۔
’’یہاں مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہاہے۔اللہ میاں کہاں ہیں؟‘‘۔
فرشتے نے مجھے گھورا اور سرگوشی میں بولا۔
’’احمق کہیں کے۔دنیا سے آرہا ہے اور پوچھتا ہے کہ اللہ میاں کہاں ہیں؟اللہ میاں تو ہر چیز میں ہیں مگر تونے کبھی دیدہ بینا ہی پیدا نہیں کیا۔خود کو ہی دیکھتا رہا‘‘۔
شاید مرنے کے بعد انسان کی حسیات کچھ زیادہ ہی کام کرتی ہیں۔میں لمحہ بھر میں بہت کچھ سوچ گیا۔یہ فرشتہ بالکل ٹھیک بات کر رہا تھا۔میں نے سوچا تو مجھ پر کھلا کہ میں نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا تھا کہ اللہ میاں کہاں کہاں نہیں تھے؟مگر اب شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔میں اللہ میاں کے سامنے کھڑا تھا۔روشنی کے منبع سے نرم اور شفیق آواز پھر اُبھری۔
’’اس کا نامہ اعمال پیش کیا جائے‘‘۔
مجھے علم نہیں تھا کہ ہمارے علاوہ وہاں دو اور فرشتے بھی موجود تھے۔دونوں آگے بڑھے۔اُن کے ہاتھوں میں کاغذوں کا ایک ضخیم پلندہ تھا۔اُنہوں نے اُسے پڑھنا شروع کیا۔میں حیران رہ گیا۔وہ میری وہ وہ اچھائیاں اور برائیاں گنوا رہے تھے جن میں سے چند ہی مجھے یاد تھیں۔وہ گناہ جنہیں میں چھوٹا سمجھ رہا تھا اور وہ نیکیاں بھی جنہیں کرکے میں بھول چکا تھا۔فرشتوں نے یہاں تک لکھ رکھا تھا کہ میں نے ایک مرتبہ ایک ٹوٹی ٹانگ والے کتے کو رستے سے ہٹا کر سڑک کے کنارے ڈال دیا تھا کہ کوئی گاڑی اُسے کچل نہ دے۔اسی طرح ایک مرتبہ میں نے اپنی اماں کے دوپٹے کی گرہ سے ایک روپیہ بارہ آنے چوری کرکے فلم دیکھی تھی۔میرے ہر ہر پل کا حساب تھا اُن فرشتوں کے پاس۔فرشتے میرے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کرتے رہے۔پھر وہ اپنا لکھا ختم کرکے اُسی گوشے میں واپس چلے گئے جہاں وہ پہلے کھڑے تھے۔نور کے پردے کے پار خاموشی تھی لیکن یہ خاموشی مجھے بے قرار نہیں کر رہی تھی۔میں اپنے بارے میں فیصلہ سننے کا منتظر تھا۔پھروہی نرم، من موہنی، میٹھی آواز سنائی دی۔
’’میں قادر مطلق ہوں۔صمیم و بصیر ہوں۔تم سب سے زیادہ جانتا ہوں۔تم سے ایک چُوک ہو گئی ہے۔اس شخص کے بارے میں تم نے ایک انتہائی ضروری بات نہیں لکھی۔کیوں نہیں لکھی؟‘‘۔
میں نے گردن گھما کر کراماً کاتبین کو دیکھا۔وہ گھبرائے ہوئے اور پریشان دکھائی دے رہے تھے۔پھر دونوں آگے بڑھے، سجدے میں گئے اور ان میں سے ایک نے کھڑے ہو کر کہا۔
‘‘بے شک ہمارے مالک۔ایک سہو ضرور ہوا۔ہمیں معاف کر دے۔اور وہ سہو یہ تھا کہ اس شخص نے اپنے محلے میں بننے والی ایک مسجد کی تعمیر کی مخالفت کی تھی۔کہتا تھا مسجدیں قدم قدم پر ہیں۔یہاں ہسپتال بننا چاہئے۔سکول بننا چاہئے۔عورتوں کے لئے روزگار کا کوئی ذریعہ بننا چاہئے۔یہی بات تھی میرے مالک۔بلاشبہ ہم اس کا انجام جانتے ہیں۔جو شخص خدا کے گھر کا مخالف ہو، اُس کی جگہ جہنم کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتی‘‘۔
نور سے اُبھرنے والی آواز میں اب بھی نرمی تھی۔
’’میں قادر مطلق ہوں۔یہ فیصلہ مجھے کرنا ہے۔بلا شبہ مسجد میرا گھر ہے۔میں وہاں رہتا ہوں لیکن میں نے آدم کی تخلیق محض قدم قدم پر مسجدیں بنانے کے لئے نہیں کی تھی۔میں نے آدم کو درد دل کے واسطے پیدا کیا تھا۔ایک دوسرے کی غم گساری کا درس دے کر دنیا میں بھیجا تھا۔میں تم سے مشورہ نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کروں کیونکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں۔سب اللہ کے محتاج ہیں۔بادی النظر میں یہ گناہ ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن میں اس کے دل میں جھانک سکتا ہوں۔یہ ہمارا اور ہمارے نام پر بننے والی مسجدوں کا مخالف نہیں تھا۔یہ تنگ نظر انسانوں کا خیال ہو سکتا ہے۔ہمارا نہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے بعض اوقات ہماری حدوں سے تجاوز کیا۔اس کے نامہ اعمال میں ایسی سیاہی جا بجا بکھری دکھائی دیتی ہے۔ہم چاہیں تو اسے اسی وقت جہنم میں پھنکوا سکتے ہیں، لیکن ہم ایسا کریں گے نہیں کیونکہ یہ ہمارے بھیجے ہوئے مذہب میں پھندنے ٹانکنے والوں میں سے نہیں تھا۔مذہب کے نام پر وہ دھول اُڑانے والوں میں سے نہیں تھا جس نے ہمارا چہرہ ہی ہمارے ماننے والوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا ہے۔اس کے گناہوں کو نظر میں رکھیں تو اس کی جگہ جہنم ہی بنتی ہے لیکن لے جاؤ کمبخت کو اور جنت میں کوئی ایسا چھوٹا سا گھر الاٹ کردو جس میں ایک آدھ حور ہو اور اسے شراب کی کوئی تکلیف نہ ہو۔
میں اللہ میاں کو مہربان پا کر حوصلہ مند ہوا اور میں نے کہا۔
’’اللہ میاں۔سنا ہے حوریں یہاں لاکھوں برس سے رہتی ہیں اور یہاں کی شراب میں نشہ بھی نہیں ہوتا۔ایسی حور اور ایسی شراب لے کے میں کیا کروں گا کہ کسی اُستاد نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ جو مجھ کو پلانی ہے تو دنیا سے منگا دے!‘‘۔
اس بار جو آواز آئی تو اُس میں چھپی مسکراہٹ میں نے صاف محسوس کی۔اللہ میاں نے کہا۔
’’اسی لئے ہم نے کہا ہے انسان بہت جلد باز اور خسارے میں رہنے والا ہے۔ہماری مصلحتوں کو نہیں سمجھتا اور اپنی طرف سے ہمارے کارخانے میں مِین میخ نکالتا رہتا ہے۔بد بخت ایک دفعہ اُس گھر میں جا تو سہی!‘‘۔
میری آنکھ کھلی تو میرا جسم پسینے سے تر تھا اور دُور کہیں سے فجر کی اذان سنائی دے رہی تھی۔
Subscribe to:
Comments (Atom)