Wednesday, 10 June 2015

Dost

Download Urdu Quotes  ||  Jaun Elia Poetry


زندگی کے ساتھ ساتھ ہمارے دوست بھی کم ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ یادوں سے محو ہو جاتے ہیں، کچھ دل سے اُتر جاتے ہیں اور کچھ نظروں سے گر جاتے ہیں۔ دوستوں کی تعداد کتنی ہے کوئی معنی نہیں رکھتی، اگر کچھ معنی رکھتا ہے تو یہ کہ ان میں کتنے سچے ہیرے ہیں جو لفظ دوستی کے معنوں پر پورے اترتے ہیں۔

Kitab Sheher e Arzoo se Iqtibas



انسان بڑی دلچسپ مخلوق ہے۔ یہ جانور کو مصیبت میں دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتا لیکن انسان کو مصیبت میں مبتلا کر کے خوش ہوتا ہے۔
.
یہ پتھر کے بتوں تلے ریشم اور بانات کی چادریں بچھا کر ان کی پوجا کرتا ہے۔ لیکن انسان کے دل کو ناخنوں سے کھروچ کے رستا ہوا خون چاٹتا ہے۔
.
انسان اپنی کار کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس کا ماتھا پونچھتا اور اس کے پہلو چمکاتا ہے اور میلے کچیلے آدمی کو دھکے دے کر اس لیے پرے گرا دیتا ہے کہ کہیں ہاتھ لگا کر وہ اس مشین کا ماتھا نہ دھندلا کر دے ۔
.
انسان پتھروں سے مشینوں سے جانوروں سے پیار کر سکتا ہے انسانوں سے نہیں۔

اشفاق صاحب کی کتاب شہر آرزو سے اقتباس

Punjab ki Ek Lok Kahani


بیٹے نے جوان ہوتے ہی پر پرزے نکالنے شروع کردیے۔ اوباش اور آوارہ لوگوں کی صحبت میں‌بیٹھنے لگا۔ جوچیز ہاتھ لگتی دوستوں کو کھلا دیتا۔ بوڑھے باپ نے جب ایک دوبار سمجھانے کی کوشش کی تو کہنے لگا، بابا آپ بلاوجہ میرے دوستوں کی مخالفت کرتے ہیں،جیسےمیرے دوست ہیں‌ایسے تو دنیا میں کسی کے ہو ہی نہیں‌سکتے۔ میرے پسینے کی جگہ خون بہانے کو تیار رہتے ہیں۔ بوڑھے باپ نے کہا ، بیٹے ایک دن پچھتاؤ گے اور پھر کہو گے کہ باپ ٹھیک ہی کہتا تھا۔ بیٹے پر جوانی کا بھوت سوار تھا اور آوارہ دوستوں کی صحبت نے اس کے کان بند کردیے تھے۔ بالاخر اس نے گھر کی ہر چیز ٹھکانے لگا دی۔ جب لڈو ختم ہوئے تو اس کے یاروں نے بھی منہ چرانا شروع کردیا اور ایک ایک کرکے کھسک گئے۔ نوجوان کی یہ حالت ہوئی کہ اس کا دوستی کے رشتے سے ہی ایمان اٹھ گیا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اب دوستی کے رشتے کو کوستا۔ باپ نے ایک دن اسے کہا، چل میرے ساتھ ، وہ باپ کے ساتھ چل پڑا۔ رات گئے وہ ایک گاؤں میں پہنچے۔ باپ نے کہا یہ میرے دوست کا گھر ہے تمھیں‌پتا چل جائے گا کہ دوست کیا ہوتے ہیں۔ باپ نے دستک دی، اندر سے کھسر پھسر کی آواز سنائی دی، پھر پوچھا گیا کون ہے؟
نوجوان کے بوڑھے باپ نے اپنا نام بتایا۔ مگر دروازہ نہ کھلا جب کافی دیر ہو گئی تو بیٹے نے کہا یہ ہے آپ کا دوست جس پر آپ کو بڑا ناز تھا۔۔۔ابھی تک دروازہ نہیں‌کھولا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور گھر کا مالک باہر نکلا، اس نے بوڑھے کو سینے سے لگایا، نوجوان کے سر پر پیار کیا اور بولا ۔۔۔ معاف کرنا دیر ہو گئی تم برسوں کے بعد آئے تھے سوچا ۔۔۔۔کوئی کام ہو گا اگر کسی سے بدلہ لینا ہے تو میری تلوار تیار ہے حکم کرو، ساتھ چلتا ہوں، روپے کی ضرورت ہے تو میں نے جو پیسے دبا رکھے تھے سب نکال کر رکھ دیے ہیں لے لو۔ اور اگر بیٹے کے لیے رشتہ درکار ہے تو بیٹی دلہن کی طرح سجی بیٹھی ہے، نکاح پڑھواؤ اور اسے لے جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(پنجاب کی ایک لوک کہانی)

Kya Aap ne Hamesha Zinda hi Rehna Hai ?


کیا آپ نے کبھی جہاز کا سفر کیا ہے؟ اگر نہیں کیا تُو کوئی بات نہیں ٹرین کا سفر تُو ضرور کیا ہوگا آپ نے۔۔۔
کیا آپ نے کبھی یہ غور کیا کہ سفر جہاز سے ہُو یا کہ ٹرین سے۔ ہر سفر تکلیف دہ ضرور
ہوتا ہے اس سفر میں کئی پابندیاں آپ کی ذات پر لاگو کردی جاتی ہیں جنہیں آپ باہمی
رضامندی سے قبول بھی کرلیتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ کو ایک خاص نشست تک محدود کردِیا جاتا ہے ۔ لیکن آپ بِلا چُوں چِراں مان جاتے ہیں۔
آپ کو اس سفر میں دورانِ سفر یہ آزادی نہیں ُہوتی کہ آپ اپنی مرضی سے دوران سفر چہل قدمی کرتے ہُوئے اندر باہر جاسکیں بلکہ جہاز کے سفر میں تُو آپ کو سیٹ بیلٹ سے باندھ دِیا جاتا ہے اور آپ اعتراض بھی نہیں کرتے۔
اِسی طرح ٹوائلٹ کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کے باوجود بھی آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوتی حالانکہ ٹرین کے مُقابلے میں ہوائی جہاز کا ٹُوائلٹ اسقدر تنگ ہُوتا ہے کہ خبر ہی نہیں ہو پاتی کہ کب شروع ہوا ۔ اور کب خَتم بھی ہو گیا۔
چاہے وہ ائيرپورٹ ہو۔ یا ریلوے اسٹیشن عموماً دھکم پیل کی وجہ سے آپ کو ایذا پُہنچتی ہے لیکن آپ خاموش رِہتے ہیں اور زیادہ واویلا نہیں مَچاتے ۔
کبھی سَخت سردی اور کبھی چلچلاتی دُھوپ کو مُناسب انتظام نہ ہُونے کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن کبھی کوئی مُسافر اسکی بھی شکایت نہیں کرتا اور نہ ہی آپ نے آج تک کوئی ایک ایسی مِثال سُنی ہوگی کہ موسم کی سختی سے بچنے کیلئے کسی مُسافر نے کسی ریلوے اسٹیشن پر کوئی سائبان تعمیر کیا ہُو یا کوئی کمرہ بنایا ہُو۔
آخر کیوں لوگ اس طرح کی عمارت کسی ریلوے اسٹیشن پر اپنی آسانی کیلئے تعمیر نہیں کرتے؟
کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ تکلیفیں عارضی ہیں۔ کس مُسافر کو پَڑی ہے کہ عارضی جگہ پر عمارتیں تعمیر کراتا پھرے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہمیں کونسا ہمیشہ اس پلیٹ فارم پر رِہنا ہے۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ انتظار گاہ ہے نا کہ آرام گاہ۔ اِسی واسطے تکلیف چاہے ٹرین کے سفر میں درپیش ہُو یا جہاز کے سفر میں، ہر ایک ہَنس کر اِن تکالیف کو برداشت کرلیتا ہے کہ وہ جانتا ہے یہ تکلیف عارضی ہے ، یہ ٹھکانہ بھی عارضی ہے اور آگے منزل ہے جس پر پُہنچ کر آرام ہی آرام ہے۔
ذرا ٹھہریئے۔ یہاں رُک جایئے۔
کیا یہ دُنیا ریلوے اسٹیشن کی طرح نہیں؟
کیا یہ عارضی ٹھکانہ نہیں؟
کیا ہمیشہ ہمیں یہیں رِہنا ہے یا ہماری منزل کہیں اور ہے؟
کیا آپ نے کبھی پلٹ کر اپنی گُذشتہ زندگی کے سفر کے متعلق سوچا؟ کیا آپکو نہیں لگتا کہ جو زندگی آپ گُزار آئے ہیں ۔ وہ چاہے بیس برس ہو یا کہ ساٹھ برس کی کیوں نہ ہو ۔ کیا ایسا محسوس نہیں ہُوتا کہ جیسے ابھی دُنیا میں آئے چند ہی لمحے ہوئے تھے اور ہم زندگی کے کئی سنگ میل عبور کرآئے۔
کیا کل ہمارے بُزرگ بچے ، نوجوان ، اور جوان نہیں تھے؟
کیا آپکو ایسا محسوس نہیں ُہوتا کہ سال پلک جھپکتے ہُوئے گُزر رہے ہیں ابھی ایک عید جاتی نہیں کہ دوسری عید سر پہ آکھڑی ہُوتی ہے۔
اور آخر ہم کِس کو دھوکا دے رہے ہیں؟ کہیں ہم خُود کو تُو یہ دھوکا نہیں دے رہے؟
کہیں یہ دُنیا کا سفر ايسا سفر تو نہیں جسے منزل سمجھ کر ہم اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور اسکی زیبائیش میں اتنے مگن ہیں کہ اب تو گاڑی چھوٹ جانے کا خُوف بھی ہمارے دِل سے نِکل چُکا ہے؟

منقول